انوار رمضان |
ضائل ، ا |
|
باقی رہ جاتےتو آپﷺاپنے گھر والوں میں سے جو رات کو قیام(یعنی عبادت کیلئے جاگنے)کی طاقت رکھتا تو آپ اُسے ضرور جگاتےتھے۔(فتح الباری:4/269) ﴿نواں عمل : فرائض و واجبات کا اہتمام کرنا﴾ عبادت کے اعمال میں سب سے اہم اور بنیادی چیز شرعاً لازم ہونے والی ذمّہ داریوں کو پورا کرنا ہے ، اسی میں اگر غفلت اور کوتاہی بَرتی جائے تو نفلی اعمال کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی،جیساکہ بعض لوگ فرض نماز کو ترک کردیتے ہیں یا جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کو اہمیت نہیں دیتے لیکن نفلی اور مستحب اعمال میں وقت، مال اور اپنی توانائیاں لگاتے رہتے ہیں ،یاد رکھئے ! یہ سراسر غلطی اور غلط فہمی ہے ۔ حدیثِ قدسی میں آتا ہےاللہ تعالیٰ اِرشاد فرماتے ہیں :”مَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِي بِشَيْءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ“ میرا بندہ کسی بھی چیز کے ذریعہ میرا قرب اُس سے زیادہ بہتر چیز سے حاصل نہیں کرسکتا جو میں نے اُس پر فرض کی ہے۔یعنی سب سے زیادہ قرب اور نزدیکی مجھ سے فرائض کے اداء کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔(بخاری:6502) اِس سے معلوم ہوا کہ سب سے بڑی عبادت اور قرب کا ذریعہ فرائض و واجبات کی ادائیگی ہے ، اُن میں کسی قسم کی کوتاہی یا غفلت کا مرتکب نہیں ہونا چاہیئے ، اِس کو یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ فرائض کی ادائیگی انسان کی ڈیوٹی اور اُس کی ذمہ داری ہے جبکہ نوافل اُووَ رٹائم اور پارٹ ٹائم کا نام ہے ، ظاہر ہے کہ ہر ذی شعور اور عقل و فہم کا حامل یہ سمجھتا ہے کہ ذمّہ داری کو نبھانا اصل ہوتا ہے ، اووَر ٹائم لگانا ضروری نہیں ہوتا۔