انوار رمضان |
ضائل ، ا |
|
حکمت و دانائی کے دس اجزاء ہیں ،اُن میں سے9 اجزاء خاموشی میں ہیں اور دسواں حصہ لوگوں سے عُزلت اور کنارہ کشی میں ہے۔(الصّمت لابن ابی الدّنیا:62 ،رقم:36) (5)پانچواں ادب:لڑائی جھگڑے سے گریز کرنا: روزہ کی حالت میں اِنسان کے مزاج و طبیعت میں کچھ چڑچڑا پن سا آجاتا ہے ،بالخصوص جبکہ وہ گرمیوں کے روزے ہوں تو تپتی ہوئی گرمی اورشدّتِ پیاس کے عالَم میں قوّتِ برداشت اور تحمل کی سکَت کافی کم ہوکر رہ جاتی ہے جس کی وجہ سے معمولی سی ناگواری بھی بڑی ناگواری بن جاتی ہے اور اِنسان لڑنے جھگڑنے اور گالم گلوچ پراُتر آتا ہے، اِسی وجہ سے نبی کریمﷺنے روزہ دار کو بطورِ خاص اِس سے منع فرمایا ہے،چنانچہ حضرت ابوہریرہنبی کریمﷺکایہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں:”وَإِذَا كَانَ يَوْمُ صَوْمِ أَحَدِكُمْ فَلاَ يَرْفُثْ وَلاَ يَصْخَبْ، فَإِنْ سَابَّهُ أَحَدٌ أَوْ قَاتَلَهُ، فَلْيَقُلْ إِنِّي امْرُؤٌ صَائِمٌ“ جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو اُسے چاہیئے کہ کوئی فحش بات نہ کرے اور نہ شور مچائے، اگر کوئی شخص اُسے گالی دے یا جھگڑا کرے تو کہہ دے کہ میں روزہ دار آدمی ہوں۔(بخاری:1904) ایک اور روایت میں ہے،آپﷺنے اِرشاد فرمایا:”الصِّيَامُ جُنَّةٌ فَلاَ يَرْفُثْ وَلاَ يَجْهَلْ، وَإِنِ امْرُؤٌ قَاتَلَهُ أَوْ شَاتَمَهُ فَلْيَقُلْ: إِنِّي صَائِمٌ مَرَّتَيْنِ“ روزہ ڈھال ہے،اِس لئے کوئی شخص (روزہ کی حالت میں)نہ فحش بات کرے اور نہ ہی جہالت کی بات کرے،اگر کوئی اس سے جھگڑا کرے یا گالی دے تو اُسے چاہیئے کہ دو مرتبہ کہہ دے”مَیں روزہ سے ہوں“۔(بخاری:1894)