انوار رمضان |
ضائل ، ا |
|
بعد کسی قسم کی مشقت کا سامنا نہیں ہوتا ۔حدیث میں سات سال کی عُمر میں بچے کو نماز کا حکم دینے کی تلقین کی گئی ہے، چنانچہ اِرشاد نبوی ہے:”مُرُوا أَوْلَادَكُمْ بِالصَّلَاةِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِينَ وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا،وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرٍ“ ترجمہ: اپنی اولاد کو سات سال کی عُمر میں نماز کا حکم دو اور دس سال کی عمر میں نماز نہ پڑھنے پر اُنہیں مارو۔(ابوداؤد:495) فقہاء کرام کی تصریحات کے مطابق نماز کے بارے میں حدیث کے اندر جو حکم دیا گیا ہے، یہی حکم روزہ اور دیگر شرعی احکامات کا بھی ہے۔(الدر المختار: 1/352) فقہِ حنفی کی مشہور کتاب”الاختیارلتعلیل المختار“میں لکھا ہے کہ بچے کو روزے اور نماز کا حکم دیا جائے گا اور اُسے شراب وغیرہ پینے سے منع کیا جائے گا تاکہ اُسے خیر کے کاموں کے کرنے اور گناہوں سے بچنے کی عادت و اُنسیت پیدا ہو۔(الاختیار:4/159) (2).....دوسری بات : صلاحیت نہ ہو تو زبردستی نہیں کرنی چاہیئے : بعض لوگ بہت چھوٹی عُمر میں بچوں کو زبردستی روزہ رکھوانے کی کوشش میں لگے ہوتے ہیں جبکہ ابھی تک بچے میں روزہ رکھنے کی طاقت وصلاحیت نہیں ہوتی ، یہ طریقہ بھی غلط ہے اور بچے کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے، اِس سے گریز کرنا چاہیئے ۔ (3).....تیسری بات :سمجھ دار بچوں کو تربیت کی غرض سے کچھ دیر کا روزہ رکھوائیں : تربیت کیلئے بچوں کو اُن کی صلاحیت و طاقت کے مطابق آدھے دن کا یا اِس سے کم یا زیادہ وقت مقرر کرکے روزہ رکھوانا چاہیئے،جو مکمل شرعی روزہ تو نہیں ہوتا لیکن اِس سے بچوں میں روزہ رکھنے اور اُس کا وقت بڑھانے اور سب کے ساتھ روزہ کھولنے کا