انوار رمضان |
ضائل ، ا |
|
عبادت کی اہلیت ہی نہیں رکھتا ۔(3)مالکِ نصاب ہونا:یعنی ساڑھے باوَن تولہ چاندی یا اُس کی مالیت کے ضرورت سے زائد مال کا مالک ہونا ۔(الدر المختار :2/360) فائدہ : کسی شخص کے دو گھرہیں ایک میں وہ خود رہتا ہے او ر دوسرا خالی پڑا ہے یا کسی کو کرایہ پردے رکھا ہے ، تو دوسرا مکان اس کی ضرورت سے زائد کہلائے گا ، اب اگر اس کی اتنی قیمت ہو جس پر زکوٰة واجب ہوجاتی ہے تو اس پر صدقہ فطر واجب ہے، البتہ اگر مالک کا اسی مکان کی آمدنی پر گزارا ہوتا ہے،اس کے علاوہ کوئی اور ذریعہ معاش نہیں ہےتویہ مکان بھی ضروری اسباب میں داخل ہے او راس پر صدقہ فطر واجب نہیں ہوگا۔ ( تاتارخانیہ:2/418) (2).....دوسری بات:صدقہ فطر کا نصاب اوراُس کی مقدار : نصاب سے وہ مالیت مراد ہےجس پر صدقہ فطر لازم ہوتا ہے،اورمِقدار سے مراد وہ واجب الاَداء مِقدار ہے جس کا صدقہ فطر کے طور پر اداء کرنا لازم ہوتا ہے۔ صدقہ فطر کا نصاب: اس کا نصاب وہی ہے جووجوبِ زکوۃ کا نصاب ہے ،یعنی ساڑھے 52 تولہ چاندی یا اُس کی مالیت کے بقدر ضرورت سے زائدمال کا مالک ہونا ،البتہ اس میں مالِ تجارت ہونا ، سال کا گذرنا ،بالغ یا عاقل ہونا شرط نہیں ،پس اسی لئے بعض اوقات صدقہ فطر اُس شخص پر بھی لازم ہوتا ہے جس پر زکوۃ لازم نہیں ہوتی ۔(نوادر الفقہ، رفیع عثمانی :272) واضح رہے کہ صدقہ فطر کے نصاب میں زکوۃ کی طرح مال کا ”نامی “یعنی بڑھنے والا ہونا یا ”سال کا گزرنا “شرط نہیں ،یعنی زکوٰة کے نصاب میں تو سونا، چاندی ، نقدی یا مال