انوار رمضان |
ضائل ، ا |
|
تجارت کا ہونا ہی ضروری ہے ، جب کہ صدقہ فطر میں ان چار مالوں کے علاوہ بھی ہر قسم کا مال نصاب میں شامل ہوتا ہے ، البتہ ایک چیز ان دونوں نصابوں میں مشترک ہے کہ روز مرہ کی ضرورتوں سے زائد ہو اور قرضے سے بچا ہوا ہو۔(مجمع الانہر:1/226 ،227)(طحطاوی علی المراقی، باب صدقۃ الفطر )(ہدایہ ، باب صدقۃ الفطر )(الدر المختار :2/360) غیر صاحب نصاب کیلئے بھی صدقہ فطر اداء کرنا بہتر ہے : صدقہ فطر ادا کرنے کا حکم صرف مال داروں کے ساتھ خاص نہیں ، بلکہ فقراء کو بھی صدقہ فطر ادا کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،اگرچہ شرعاً اُن پر لازم نہیں لیکن اگر وہ اداء کردیں تو اُن کیلئے بھی بہتر اور برکت کا باعث قرار دیا گیا ہے ، چنانچہ ایک حدیث میں ہے ،حضرت ابوہریرہاِرشاد فرماتے ہیں:”زَكَاةُ الْفِطْرِ عَلَى الْغَنِيِّ وَالْفَقِيرِ“ صدقہٴ فطر غنی اور فقیر دونوں اداء کریں۔ (دار قطنی:2110) ایک اور روایت میں ہے:صدقہ فطر (واجب ہے)گیہوں میں سے ایک صاع دو آدمیوں کی طرف سے(یعنی ہر ایک کی جانب سے آدھا آدھا صاع ہوگا) خواہ چھوٹے ہوں یا بڑے،،آزاد ہوں یا غلام،مرد ہوں یا عورت ، اور ایک روایت کے مطابق ”غنی ہو یا فقیر“۔غنی کا معاملہ یہ ہے کہ الله تعالیٰ اس مال دار کو تو صدقہ فطر ادا کرنے کی وجہ سے پاکیزہ بنا دیتا ہے اور فقیر ( جو مالک نصاب نہ ہو ) اس کو اس سے زیادہ عنایت فرماتا ہے ، جتنا اس نے صدقہ فطر کے طور پر دیا ہے۔ (ابوداؤد:1619) حدیث میں یہ جو بشارت دی گئی ہے:”فَيَرُدُّ اللَّهُ تَعَالَى عَلَيْهِ أَكْثَرَ مِمَّا أَعْطَى“ یعنی اللہ تعالیٰ اس کو اس سے زیادہ عنایت فرماتا ہے ، جتنا اس نے صدقہ فطر کے طور پر