گلدستہ سنت جلد نمبر 3 |
صلاحی ب |
|
کی نیت سے رکھ دیں، اس کو ذرا اچھا سا بنالیں، عمدہ غلاف چڑھا لیں تو بہت بہتر ہے۔ آپﷺ نے تو چمڑے کا تکیہ دیا تھا جس میں اِذخر گھاس بھری ہوئی تھی۔ اب یہاں ایک بات سمجھ لیجیے! حضرت علی اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ دونوں دامادِ رسولﷺہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبیﷺ نے اپنی بیٹی کو جہیز میں جو تکیہ دیا تھا وہ چمڑے کا تھا اور اس کا بھراؤ اِذخر گھاس سے تھا، کھجور کی چھال سے بھی نہیں تھا۔ یعنی رخصتی میں بیٹی کو خود سے ضرورت کے درجے میں چیز دی ہے۔ بیٹی کو یہ نہیں کہا کہ تم نے دنیا کی عیش وآرام میں پڑنا ہے۔ آج کل تو بیٹیاں بھی اور مائیں بھی اور خود سُسرال والے بھی جہیز کی بڑی بڑی Demandکرتے ہیں۔ دیکھیں! ہم نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ اگر کوئی والد اپنی خوشی سے، اپنی استطاعت سے کوئی چیز اپنی بیٹی کو دے دے پھر تو جواز بنتا ہے، لیکن اگر لڑکے والے جیسے کہ دولہا والے ڈیمانڈ کریں کہ ہمیں یہ چاہیے اور وہ چاہیے، تو اُن کے لیے یہ مانگنا شرعاً جائز نہیں گناہ ہوگا۔ آج ہم میں سے ہر آدمی اس فکر میں تو ہے کہ حرام غذا کے بارے میں پتا لگے کیوں کہ حلال بسکٹ کھانا ہے، حلال چاکلیٹ کھانی ہے۔ چیزیں حلال کھانی ہیں تو کمائی بھی تو حلال ہو۔ آج کل حلال کمائی کا خیال نہیں رکھا جا رہا۔ اب جہیز کا مطالبہ کرنا کس نے کہہ دیا کہ حلال ہے؟ اسی طرح بہنوں کو حصہ نہ دینا، عورتوں کو حصہ نہ دینا، یہ بھی تو حلال نہیں ہے۔ ہم ہر چیز کو سنت کی طرف لانے کی کوشش کریں۔ نبیﷺ اپنی لاڈلی بیٹی کے لیے اگر چاہتے تو اللہ سے دعا کرتے اور حضرت جبرائیل علیہ السلام جنت سے تکیے لاسکتے تھے۔ دنیا بھرکا جہیز نبیﷺ دے سکتے تھے، لیکن نبی کریمﷺ نے جو کچھ اپنی بیٹی کو دیا وہ اُن کی ضرورت کے تحت دیا۔