گلدستہ سنت جلد نمبر 3 |
صلاحی ب |
|
بوڑھا بولے یا بچہ بولے ہم پہچان لیتے ہیں۔ اپنا بولے، غیر بولے ہم پہچان لیتے ہیں۔ ایسا اللہ نے ادراک عطا فرمایا ہے، ایسی Quality عطا فرمائی ہے۔ لیکن اگر ہم ان کانوں سے گانے سنے تو ہمارے دل کے اوپر ویسا بُرا اثر ہوگا۔ حضرت نافع رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ وہ یعنی خودحضرت نافع ’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ کہیں جارہے تھے۔ راستے میں ایک چرواہے کے پاس سے گزر ہوا جو بانسری بجارہا تھا۔ یہ بانسری کیا ہے؟ سادی سی لکڑی کی چیز ہے ادھر سے پھونک مارو، ہوا سے آگے سے آواز نکلتی ہے۔ اس کو شریعت نے منع کردیا۔ اسی پھونک کو قرآن پڑھ کے، سورۃ فاتحہ پڑھ کے دم کردو تو شفاء اور یہی پھونک بانسری سے نکلے تو گناہ۔ اب یہ دونوں چل رہے ہیں سنا کہ بانسری کی آواز کانوں میں پڑھ رہی ہے، تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دونوں کانوں کے اندر انگلیاں دیں اور پھر چلتے رہے۔ پھر انہوں نے پوچھا: نافع! کیا ابھی بھی آواز آرہی ہے؟ انہوں نے عرض کیا: ابھی بھی آواز آرہی ہے۔ پھر چلتے رہے اور آگے جاکر پھر پوچھا تو نافع رحمۃ اللہ علیہ نے کہا: اب آواز نہیں آرہی۔ تب انہوں نے دونوں کانوں سے انگلیاں نکالیں اور فرمایا کہ میں نے جناب رسول اللہﷺ کو ایسے موقع پہ یہی کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ اب کسی کے دل میں خیال آئے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے تو یہ کیا حضرت نافع نے کیوں نہیں کیا؟ اس کا جواب علامہ ابن اسیر جزری رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے ’’جامع اصول‘‘ کے اندر کہ حضرت نافع رضی اللہ عنہ اس وقت نابالغ تھے چھوٹے تھے، وہ مکلف ہی نہیں تھے۔ ہم تو بال کی کھال نکالنے والے ہیں، اس لیے اچھی طرح سمجھ لیں کہ وہ مکلف نہیں تھے چھوٹے تھے، لیکن بڑے نے وہ کیا جو نبی علیہ السلام کا عمل تھا۔ اب یہ ظاہری عمل ہے کیوں کیا کہ وہ آقا علیہ السلام کی بات کی حقیقت کو جانتے بھی تھے پہچانتے بھی تھے۔ اور دل سے