گلدستہ سنت جلد نمبر 3 |
صلاحی ب |
|
حضرت خولہ رضی اللہ عنھا آئیں اور عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی! کیا آپ شادی نہیں کریں گے؟ نبی ﷺ نے دریافت فرمایا: کس سے؟ حضرت خولہ کہنے لگیں کہ چاہیں تو کنواری سے، اور چاہیں تو بیوہ سے۔ نبی ﷺ نے پوچھا کہ کنواری کون ہے؟ عرض کیا کہ آپ کے محبوب دوست حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیٹی عائشہ رضی اللہ عنھا ۔ پوچھا کہ بیوہ کون ہے؟ عرض کیا کہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنھا جو آپ پر ایمان لائیں اور آپ کی اتباع کرنے والی ہیں۔ حضور پاکﷺ نے فرمایا کہ آپ دونوں ہی سے بات کرلیجیے۔ حضرت خولہk نے حضرت سودہ رضی اللہ عنھا سے بات کی اور نکاح ہوگیا۔ پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بات کی تو یہاں حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے نکاح ہوگیا۔ (مسند احمد:25810) معلوم ہوا کہ بیوی کی وفات کے بعد بلا نکاح زندگی گزارنا خلافِ سنت ہے۔ اور آج ہمارے معاشرے میں اولاد ناراض ہوجاتی ہے۔ سنت پوری کرنے میں جو عزّتیں ہیں، جو برکتیں ہیں وہ کہیں اور سے آہی نہیں سکتیں۔ خیر تو صرف نبی ﷺ کی بات کو % 100 ماننے میں ہے۔ جو درمیانی راستے ہم نکالتے ہیں بنی اسرائیل کے اُن لوگوں کی طرح جنہیں بندر بنا دیا گیا تھا۔ جب انہوں نے درمیانی راستہ نکالا اور جس دن مچھلیاں پکڑنی منع تھیں یعنی ہفتے کے دن، اس دن جال ڈال کر چھوڑ دیا اور اگلے دن آکر مچھلیاں پکڑ لیں۔ اس طرح مچھلیاں بھی ہاتھ لگ جاتیں اور سمجھتے کہ ممنوعہ دن کی تعظیم بھی ہوگئی ہے، کوئی بات نہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کو ان کی یہ چال بازی پسند نہیں آئی تو انہیں بندر بنا دیا تھا۔ یاد رکھیں کہ درمیانی راستہ نکالنے والے اللہ کے عذاب کا شکار ہوسکتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم درمیانی راستہ چھوڑ کر صرف صراطِ مستقیم کو پکڑیں۔