گلدستہ سنت جلد نمبر 3 |
صلاحی ب |
|
ہے کہ اب زندگی میں کوئی غم، کوئی ٹینشن، کوئی پریشانی آئے گی ہی نہیں۔ یہ نہیں ہوسکتا۔ ایک لطیفہ ہے سن لیں۔ ایک آدمی تھا۔ شادی سے پہلے جب وہ گھر سے باہر نکلتا تھا تو یہ دعا کرتا اللہ! اپنی حفاظت میں رکھنا، اور شام کو جب گھر آتا تو دعا کرتا کہ اللہ! تیرا شکر ہے الحمدللہ۔ بیچارے کی شادی ہوگئی۔ اب شادی کے بعد جب وہ گھر آتا شام کو تو کہتا کہ اللہ! اپنی حفاظت میں رکھنا۔ صبح گھر سے باہر نکلتا تو کہتا کہ الحمدللہ۔ سکون ایک مقصد ہے تو پھر سکون کا مقصد کیا ہے؟ کیا کوئی غم پریشانی نہیں آئے گی کافر یہ سوچ تو سوچ سکتا ہے، ایمان والا کیسے سوچ سکتا ہے۔ نبی ﷺ بتاگئے ہیں کہ یہ امتحان گاہ ہے یہ دنیا چراہ گاہ نہیں یہ عیش گاہ نہیں، یہ سیر گاہ نہیں یہ تماشا گاہ نہیں یہ امتحان گاہ ہے ہم نے اس کو چراہ گاہ بنایا ہوا ہے حالات تو آئیں گے۔ اللہ فرماتے ہیں: وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ١ؕ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَۙ۰۰۱۵۵ (البقرۃ: 155) ترجمہ: ’’اور دیکھو! ہم تمہیں آزمائیں گے ضرور، (کبھی) خوف سے، اور (کبھی) بھوک سے، اور (کبھی) مال وجان اور پھلوں میں کمی کرکے‘‘۔ اس لفظ (وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ) کے اندر تاکید ہے کہ ہاں! ہم تمہیں ضرور آزمائیں گے۔ وہ کیسے آزمائیں گے؟ کبھی خوشی کے حالات دے کر، کبھی غمی کے حالات دے کر، کبھی اولاد کو غم دے کر، کبھی اولاد کو واپس لے کر، کبھی اولاد ہی نہ دے کر، کبھی تنگی دے کر، کبھی وسعت دے کر۔ غرض ہم مختلف طرح سے تمہیں آزمائیں گے کیونکہ تم امتحان گاہ میں ہو۔ اب سکون کا کیا مطلب ہوا؟ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہمیں پریشانی کوئی