اسلامی شادی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کھانا رکھا جانے لگا تو انہوں نے بچھڑے کے حصہ کی بھی پلیٹ رکھوائی لوگوں نے تعجب سے پوچھا کہ یہ کیا حرکت ہے؟ انہوںنے کہا بھائی اور لوگ تو اپنی اولاد کو لاتے ہیں میری کوئی اولاد نہیں میں اس کو عزیز رکھتا ہوں میں اس کو لایا ہوں‘ غرض سب شرمندہ ہو ئے اور اس رسم کو موقوف کیا گیا۔ حدیث شریف میں ہے کہ ایک دفعہ آنحضر ت صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ دعوت میں ایک آدمی ویسے (بغیر دعوت کے) چلے گئے آپ نے مکان پر پہنچ کر صاحب خانہ سے صاف فرمایا کہ یہ ایک آدمی ہمارے ساتھ ہو لیا ہے اگر تمہاری اجازت ہو تو آئے ورنہ چلا جائے۔ صاحب خانہ نے اس کی اجازت دے دی اور وہ شریک ہو گیا۔ رہا یہ شبہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے لحاظ سے اس نے اجازت دے دی ہو۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ایسے امور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس قدر آزادی دے رکھی تھی کہ جس کا جی چاہتا تھا قبول کرتا تھااور جس کا جی چاہتا تھا انکار کر دیتا تھا۔ چنانچہ حضرت بریرہ رضی اللہ عنھا کا قصہ مشہور ہے‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت بریرہ رضی اللہ عنھا سے مغیث رضی اللہ عنہ کی سفارش کی کہ ان کو نکاح میں قبول کر لو‘ حضرت بریرہ رضی اللہ عنھا چونکہ جانتی تھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سفار ش میں بوجھ نہیں ڈالتے اسی لئے انہوں نے پوچھا کہ آپ حکم فرماتے ہیں یا سفارش‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نہیں حکم نہیں دیتا‘ سفارش کرتا ہوں اس پر بریرہ رضی اللہ عنھا نے انکار کر دیا چونکہ معلوم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس سے ناخوش نہ ہوں گے اس لیے انہوں نے صاف انکار کر دیا۔ (حقوق و فرائض صفحہ ۴۹۶ حقوق المعاشرت) سود خور اور بدعات و رسوم کرنے والے کی دعوت کا حکم سوال: اس مقام پر اکثر لوگ سود لیتے ہیں اور وہ لوگ کاشت بھی کرتے ہیں‘ بعض کے یہاں آدھی آمدنی حلال ہے اور آدھی حرام اور کہیں آدھی سے زیادہ حلال ہے اور آدھی سے کم حرام اور بعض جگہ اس کا الٹ۔ ان لوگوں کے مکان میں پردہ بھی نہیں اور مروجہ میلاد وغیرہ کی مجلسیں بھی کرتے ہیں ایسے لوگوں کی دعوت قبول کرنا درست ہے یا نہیں۔لیکن اکثر ایسی مجلسوں میں جانے سے لوگوں کی اصلاح بھی ہو جاتی ہے۔ جواب: بے پردگی اور مروجہ مجلس میلاد اور تمام معاصی اور بدعات کو اموال کی حلت و حرمت (یعنی ان باتوں کو مال کے حلال و حرام ہونے) میں کچھ دخل نہیں۔ پس اس بناء پر تو دعوت کا رد کرنا (قبول نہ کرنا) بے اصل ہے البتہ اگر دعوت رد کرنے سے مقصود زجر (تنبیہ) و اصلاح کا ہو تو رد کر دیں اور اگر قبول کرنے میں تالیف قلب (ان کے قریب ہونے) اور نصیحت کے قبول کرنے کی امید ہو تو قبول کرنا اولیٰ ہے۔ البتہ سود کے اختلاط کو حرمت میں اثر ہے۔ اگر نصف یا اس سے زائد سود ہے تو سب حرام ہے اور اگر نصف سے کم ہے تو حلال ہے۔ (امداد الفتاویٰ صفحہ ۱۱۹ جلد ۴) جس کی اکثر آمدنی حرام کی ہو اور اس کی دعوت قبول کرنے کی جائز صورت سوال: جس کا اکثر مال یا برابر مال حرام ہے اور وہ ظاہر کرے کہ میں اپنے حلال مال