اسلامی شادی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ارادہ سے پہلے استخارہ استخارہ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ ارادہ بھی کر لو۔ پھر برائے نام استخارہ بھی کر لو۔ استخارہ تو ارادہ سے پہلے کرنا چاہئے۔ تاکہ ایک طرف قلب کو سکون پیدا ہو جائے اس میں لوگ بڑی غلطی کرتے ہیں صحیح طریقہ یہ ہے کہ ارادہ سے پہلے استخارہ کرنا چاہئے۔ پھر استخارہ سے جس طرف قلب میں ترجیح پیدا ہو جائے وہ کام کرنا چاہئے۔ (ایضاً صفحہ ۲۳۳جلد ۳) استخارہ کا محل وموقع استخارہ ان امور میں مشروع ہے جس کی دونوں جانب اباحت میں مساوی (برابر) ہوں اور جس فعل کا حسن و قبح (اچھائی یا برائی) دلائل شرعیہ سے متعین ہو ان میں استخارہ مشروع نہیں۔ (انفاس عیسیٰ صفحہ ۳۱۴) استخارہ ہوتا ہے تردد (شک) کے موقع پر اور تردد کا مطلب یہ ہے کہ طرفین (دونوں جانب) کے مصالح برابر ہوں۔ جب ایک جانب کی ضرورت متعین ہو تو استخارہ کے کیا معنی۔ (حسن العزیز صفحہ ۲۴۴ جلد ۳) استخارہ کا محل ایسا امر ہے جس میں ظاہراً نفع و ضرر دونوں کا احتمال ہے۔ استخارہ ایسے معاملہ میں ہوتا ہے جس میں نفع و ضرر دونوں کا احتمال ہو اور جس میں عادۃً یا شرعاً یا یقینا ضرر ہو‘ اس میں استخارہ نہیں جیسے کوئی نماز پڑھنے کے لئے استخارہ کرنے لگے یا دونوں وقت کھانا کھانے یا چوری کرنے کے لئے استخارہ کرنے لگے یا اپاہج عورت سے نکاح کرنے کے لئے استخارہ کرنے لگے۔ (ملفوظا ت اشرفیہ صفحہ ۲۱۵) استخارہ کی حقیقت استخارہ کی حقیقت یہ ہے کہ استخارہ ایک دعا ہے جس سے مقصود صرف طلب اعانت علی الخیر ہے۔ یعنی استخارہ کے ذریعہ سے بندہ خدا تعالیٰ سے دعا کر تا ہے کہ میں جو کچھ کروں اس کے اندر خیر ہو۔ اور جو کام میرے لئے خیر نہ ہو وہ کرنے ہی نہ دیجئے۔ پس جب استخارہ کر چکے تو اس کی ضرورت نہیں کہ یہ سوچے کہ میرے قلب کا زیادہ رجحان کس بات کی طرف ہے اور اسی پر عمل کرے بلکہ اس کو اختیار ہے کہ دوسرے مصالح کی بنا پر جس بات پر ترجیح دیکھے اسی پر عمل کرے۔ اور اسی کے اندر خیر سمجھے۔ حاصل یہ ہے کہ استخارہ سے مقصود محض طلب خیر ہے نہ کہ استخارہ (خبر معلوم کرلینا) (انفاس عیسیٰ صفحہ ۶۷۵ جلد ۲) استخارہ ایک دعا ہے کہ اے اللہ اگر یہ معاملہ میرے لئے خیر ہو تو میرے قلب کو متوجہ کر دے ورنہ میرے دل کو ہٹا دے اور جو میرے لئے خیر ہو اس کوتجویز کر دے اس کے بعد اگر اس طرف قلب متوجہ ہو تو اس کو اختیار کرنے کو ظناً خیر سمجھنا چاہئے۔ خواہ کامیابی کی صورت میں خواہ ناکامی کی صورت میں۔اور ناکامی کی صورت میں اس کے آثار کے اعتبار سے خیر ہے خواہ دنیا میں کہ اس کا نعم البدل ملے۔ خواہ آخرت میں کہ صبر کا اجر ملے۔ اور استخارہ نہ کرنے میں مجموعی طور پر اس خیر کا وعدہ نہیں۔ (ملفوظات اشرفیہ صفحہ ۲۱۵) استخارہ کی دعاء کا حاصل یہی ہے کہ جو بہتر ہو اس کی توفیق دیجئے اور اس میں یہ لفظ