اسلامی شادی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مختلف رسمیں مائیوں میں بٹھلانے اور ابٹن ملنے کی رسم شادی سے پہلے ہی سے یہ مصیبتیں اس بے چاری پر آجاتی ہیں کہ پہلے اس کو سخت قید خانہ میں رکھا جاتا ہے جس کو آپ کی اصطلاح میں مائیوں بیٹھنا کہتے ہیں۔ برادری اور کنبہ کی عورتیں جمع ہو کر لڑکی کو علیحدہ مکان میں معتکف کر دیتی ہیں یہ رسم بھی چند خرافات سے مرکب ہے۔ اول اس کو علیحدہ بٹھلانے کو ضروری سمجھنا خواہ گرمی ہو یا جس کو گو حکیم جالینوس اور بقراط بھی کہیں کہ اس کو کوئی بیماری ہو جائے گی‘ کچھ بھی ہو مگر یہ فرض قضا نہ ہو۔ ایک کوٹھڑی میں بند کر دی جاتی ہے۔ جہاں اس کو ہوا تک نہیں پہنچتی سارے گھر سے بولنا بند ہو جاتا ہے اپنی ضروریات میں دوسرے کی محتاج ہو جاتی ہے اپنے آپ پاخانہ پیشاب کو نہیں جا سکتی۔ ان رسموں کی بدولت دنیا کی سزائیں بھگتیں۔ غضب یہ ہے کہ اس قرنطینہ میں نماز تک نہیں پڑھتیں کیونکہ اپنے منہ سے پانی نہیں مانگ سکتیں اور اوپر والیوں (بوڑھی عورتوں) کو اپنی ہی نماز کی پرواہ نہیں اس کی کیا خبر لیں وہ نماز جو مرتے وقت بھی معاف نہیں مگر اس میں وہ بھی قضا کی جاتی ہے۔ اور اگر اس کے بیمار ہونے کا احتمال ہو تو کسی مسلمان کو ضرر پہنچانے کا الگ گناہ ہو گا جس میں ساری برادری شریک ہے۔ حیاء اور بے حیائی کا امتحان بھی عورتیں کرتی ہیں چنانچہ لڑکی کے گدگدی کرتی ہیں اگر وہ ہنس پڑے تو بے حیا اور نہ ہنسی تو حیا دار کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ ان منکرات کے باوجود رسمیں جائز ہو سکتی ہیں؟ حاشا وکلا۔ دین سے قطع نظریہ بات عقل کے بھی تو خلاف ہے کہ اس کو آدمی سے حیوان بلکہ جمادات (پتھر) بنا دیا جائے‘ اس کا کھانا پینا بند کیا جاتا ہے محض اس لئے کہ اگر کم کھانے کی عادت نہ ہو گی تو سسرال میں کھائے گی پھر پاخانہ جائے گی جو قانون حیاء کے خلاف ہے۔ حتیٰ کہ بہت جگہ یہ دیکھا گیا کہ فاقہ کرتے وقت لڑکیاں بیمار ہو گئیں۔ لا حول ولا قوۃ الا باللہ جب دین کو کوئی چھوڑتا ہے تو عقل بھی سلب ہو جاتی ہے شادی کے مفاسد کو کہاں تک بیان کروں جس رسم کو چاہے دیکھ لیجئے وہ دین کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ عقل سے بھی خارج ثابت ہوگی۔ (حقوق الزوجین صفحہ ۴۵۳‘ اصلاح الرسوم صفحہ۵۴‘ الافاضات صفحہ ۱۵۸ جلد ۲) ابٹن ملنے والی رسم اگر بدن کی صفائی اور نرمی کی مصلحت سے بٹنا (ابٹن) ملنے کی ضرورت ہو تو اس کا مضائقہ نہیں۔ مگر معمولی طور سے بلا کسی رسم کی قید کے (پردہ کی رعایت کے ساتھ) مل دو بس فراغت ہو گئی اس کا اس قدر طومار کیوں باندھاجائے۔ (اصلاح الرسوم صفحہ ۵۴)