اسلامی شادی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
پوچھا مولوی صاحب کہاں تشریف لے چلے ؟ مولوی صاحب نے جواب دیا اس سقے نے دعوت کی ہے اس کے یہاں جا رہا ہوں۔ رئیس صاحب ملامت کرنے لگے کہ مولوی صاحب آپ نے تو بالکل ہی بات ڈبو دی اور ایسی ذلت اختیار کی (کہ سقے کے یہاں بھی دعوت کھانے کو چل دیئے) مولوی صاحب نے ایک لطیفہ کیا اس سقے سے فرمایا کہ بھائی اگر ان کو بھی دعوت میں لے چلو تو چلتا ہوں ورنہ میں بھی نہیں چلتا‘ اب وہ سقہ امیر صاحب کے (پیچھے پڑ گیا) منت سماجت کرنے لگا پہلے تو بہت عذر کئے مگر خوشامد عجیب چیز ہے پھر اور لوگ بھی جمع ہو گئے اور مجبور کرنے لگے لا محالہ جانا پڑا۔ وہاں جا کر دیکھا کہ غریب لوگ جس تعظیم و تکریم (اور عزت) سے پیش آتے ہیں وہ امیروں اور نوابوں کے یہاں خواب میں بھی نہیں دکھلائی دیتی تو (امیر صاحب) قائل ہو گئے کہ واقعی جو راحت‘ عزت اور محبت غریبوں سے ملنے میں ہے وہ امیروں سے ملنے میں قیامت تک نہیں‘ اس لئے غریب لوگ اگر دعوت کریں تو صاحب ثرو ت (مالدار شخص) کو جاہ و تکبر کی وجہ سے انکار نہیں کرنا چاہئے۔ (حقوق و فرائض صفحہ ۴۹۸) دعوت قبول کرنے میں کوئی مباح شرط لگانا حدیث میں ہے کہ ایک فارس کے رہنے والے شخص نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میں اور عائشہ دونوں چلیں گے؟ فارسی نے کہا نہیں (یعنی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نہیں) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ نہیں (یعنی میں بھی نہیں جاتا اسی طرح تین بار فرمایا) پھر بعد میں اس نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی شرط کو منظور کر لیا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا دونوں آگے پیچھے ہوتے ہوئے چلے۔ اس نے دونوں کے روبرو چربی پیش کی۔ (مسلم بروایت انس رضی اللہ عنہ ) فائدہ اس حدیث میں اس بات پر دلالت ہے کہ اگر دعوت کی منظوری کو کسی جائز شرط سے مشروط کرے تو یہ امر نہ مسلمان کے حق کے منافی ہے اور نہ حسن اخلاق کے۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ شرط لگائی کہ اگر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی بھی دعوت کرو تو میں بھی منظور کرتا ہوں اور اس فارسی کا منظور نہ کرنا شاید اس وجہ سے ہو کہ کھانا ایک ہی شخص کو کافی ہو گا اس نے چاہا کہ حضرت صلی اللہ علیہ و سلم شکم سیر ہو کر کھا لیں‘ پھر آخیر میں منظور کر لینا اس خیال سے ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تطیب قلب (دل کو خوش کرنا) آپ کے شبع (یعنی سیراب ہونے) سے اہم ہے اور اس وقت تک حجاب کا حکم نازل نہ ہوا ہو گا۔ (التشرف بمعرفۃ احادیث التصوف صفحہ ۷۷) دعوت شادی میں غریبوں کے تکبر اور نخرے بعض لوگوں کو خبط ہوتا ہے کہ وہ اپنے غریب اور مفلوک الحال ہونے پر فخر کرتے ہیں اور امیری (مالداری) میں عیب نکالا کرتے ہیں امیر آدمی اگر فخر کرے تو ایک حد تک بجا بھی ہے کیونکہ اس کے پاس فخر کا سامان موجود ہے اور غریب آدمی جس کے پاس کھانے کو ٹکڑا نہ پہننے کو لنگوٹا وہ کس چیز پر فخر کرے پھر لطف یہ کہ یہ فخر قولاً نہیں بلکہ عمل میں بھی اس کا اثر ہوتا ہے۔