اسلامی شادی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کو اس صفت کے استعمال کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ دوسرے یہ کہ ایسے لوگوں پر حاکم ہو جن کے ساتھ عدل و انصاف کرنے میں سیاست و ضابطہ کا برتائو کر سکے یہ بھی آسان ہے۔ اس لئے کہ اس شخص کو صرف ایک حکومت کا حق ادا کرنا پڑتا ہے۔ جس میں کوئی چیز روکنے والی نہیں۔ بخلاف ایسے شخص کے جس کی کئی بیویاں ہوں کہ اس کے ما تحت ایسے دو محکوم ہیں جو اس کے محبوب ہیں اور محبوب بھی کیسے جن کے درمیان عدل و انصاف کرنا اسی حالت کے ساتھ خاص نہیں جبکہ ان میں جھگڑا ہو بلکہ اگر وہ خود نہ بھی جھگڑیں تب بھی اس حاکم پر ہر وقت کے برتائو میں ان میں برابری رکھنا واجب ہے۔ پھر اگر جھگڑا ہو تو اس وقت یہ کشاکشی ہو گی کہ اگر ان کی محکومیت کے حق ادا کرتا ہے تو محبوبیت کے حق فوت ہوتے ہیں اور ان دونوں کا جمع کرنا دو متضاد شے (آگ پانی) کے جمع کرنے سے کم نہیں اور نہایت ہی زیادہ عقل و دین کی اس میں ضرورت ہے کوئی کر کے دیکھے تو معلوم ہو اور اگر حکومت سے سبکدوش ہونا چاہے تو وہ اس لئے مشکل ہے کہ اس کی حقیقت زوجیت کو ختم کرنا (یعنی طلاق دینا) ہے اس کو شریعت مبغوض ٹھہرا رہی ہے۔ پھر اس (حکومت) کے اجلاس کا کوئی وقت متعین نہیں ہر وقت اس کے لئے آمادہ رہنا چاہئے پھر استغاثہ کا انتظار ورنہ خود دست اندازی لازم ہے۔ جس طرح قضاء (کا عہدہ) یعنی حکومت کے قبول کرنے میں حدیث میں نہایت درجہ کی تہدید (دھمکی) ہے۔ یہ بھی اس سے کم نہیں بلکہ میں نے اوپر جو کچھ بیان کیا اس سے تو یہ معلوم ہو گیا ہو گا کہ بعض اعتبار سے یہ قضا سے بھی زیادہ سخت ہے۔ جب اس سے تحذیر (ڈرنے اور بچنے) کا حکم ہے تو اس کی جرأت کرنا کب زیبا ہے۔ (اصلاح انقلاب صفحہ ۹۰ تا ۹۷) کئی بیویاں کرنے کی نزاکت اور حضرت تھانوی رحمہ اللہ کا تجربہ متعدد بیویوں کے حقوق اس قدر نازک ہیں کہ ہر ایک کا نہ وہاں ذہن پہنچ سکتا ہے اور نہ اس کی رعایت کا حوصلہ ہو سکتا ہے‘ چنانچہ باوجود یہ کہ رات کو رہنے اور لباس اور کھانے پینے میں برابری کا ہونا سب جانتے ہیں مگر اس کا بھی اہتمام نہیں ہوتا۔ باقی ان مسائل کا تو کون خیال کرتا ہے جس کو فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر ایک بی بی کے پاس مغرب کے بعد آجاتا ہے اور دوسری کے پاس عشاء کے بعد تو اس نے عدل سے خلاف کیا۔ اور لکھا ہے کہ ہر ایک کی باری میں دوسری سے صحبت جائز نہیں اگرچہ دن ہی ہو اور لکھا ہے کہ ہر ایک کی باری میں دوسری کے پاس جانا بھی نہ چاہئے۔ اور لکھا ہے کہ اگر مرد بیمار ہو گیا اور اس وجہ سے دوسری کے پاس نہیں جا سکا اس لئے ایک ہی کے پاس رہا تو صحبت کے بعد اتنی مدت تک دوسری کے پاس رہنا چاہئے اور لینے دینے میں برابری کرنے کی جزئیات بھی اس قدر دقیق ہیں کہ ان کی رعایت کرنا ہر شخص کا کام نہیں۔ مجھ کو اس قدر دشواریاں اس میں پیش آئی ہیں کہ اگر علم دین اور حسن تدبیر حق تعالیٰ نہ عطا فرماتے تو ظلم سے بچنا مشکل تھا۔ سو ظاہر ہے کہ اس مقدار میں علم اور اس قدر اہتمام کا عام ہونا بہت مشکل ہے نیز ہر شخص کا مقابلہ کرنا بھی مشکل کام ہے۔ (ایسے حالات میں) اب تعدد ازواج (کئی بیویاں رکھنا) کا بجز اس کے کہ حق ضائع کرکے گنہگار