اسلامی شادی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کتنے لوگ نماز کی پابندی کرتے ہیں موجودہ حالت یہ ہے کہ نکاح شادی میں دولہا دلہن کا تو کیا کہنا سارے باراتی اور گھر والے بھی بے نماز ہو جاتے ہیں۔ اور اس وقت دلہن تو بالکل مردہ بدست زندہ ہو تی ہے اوپر والے (بڑی بوڑھی عورتیں) جس طرح رکھیں اس طرح رہنا پڑتا ہے‘ اور ان کی دینداری کی حالت یہ ہوتی ہے کہ دلہن سے پردہ میں وہ کام تو کرادیں گی جو حد سے زیادہ بے حیائی کے ہیں یہ سب کام تو ہوں گے لیکن جب نماز کا وقت آئے گا تو وہ خلاف حیاء ہے نماز کیسے پڑھوائیں اور خود دلہن بول بھی نہیں سکتی اور اگر کوئی دلہن نماز کا نام لے اور پانی مانگے تو بوڑھی عورتیں کائیں کائیں کر کے اس کے پیچھے پڑ جائیں گی۔ لیکن اگر قلب میں نماز کا داعی (اور فکر) ہو تو وہ نمازی آدمی کو نماز کے وقت بے چین کر دیتاہے بغیر نماز کے اس کو چین ہی نہیں آتا خواہ کچھ بھی ہو جائے۔ (حقوق الزوجین) شب اول میں بعض عورتوں کی بے حیائی پہلی رات میں جب دولہا دلہن تنہائی میں ہوتے ہیں تو عورتیں کان لگا تی پھرتی ہیں یہ بڑی بے شرمی کی بات ہے۔ شب کا وقت بے حیاء کے واسطے ہوتا ہے جس میں بے حیا عورتیں جھانکتی تاکتی ہیںاور ایک حدیث کے مضمون کے مطابق لعنت کے دائرہ میں داخل ہوتی ہیں۔ صبح کے وقت یہ بے حیائی ہوتی ہے کہ شب خوابی (سونے والا) کے بستر چادر وغیرہ دیکھتے ہیں کسی کا راز معلوم کرنا مطلقاً حرام ہے۔ بالخصوص ایسی بے حیائی کی بات کی شہرت کرنا کہ سب اس کو جانتے ہیں کس قدر بے غیرتی کی بات ہے مگر افسوس ہے کہ عین وقت پر کسی کو ناگوار نہیں معلوم ہوتا۔ دولہا سے بعض باتیں بے حیائی کی پوچھی جاتی ہیں جن کا گناہ اور بے غیرتی ہونا محتاج بیان نہیں۔ (اصلاح الرسوم صفحہ ۷۱ تا ۷۹‘ الافاضات صفحہ ۱۵۸) اول شب میں بعض علاقوں میں (خصوصاً دیہاتوں میں) تو عورتیں کان لگاتی پھرتی ہیں کیونکہ یہاںپر یہ بھی رسم ہے کہ پہلی رات میں دلہن دولہا سے نہیں بولتی اگر کوئی بولی تو صبح چرچا ہوتا ہے کہ ایسی بے شرم ہے کہ ساری رات میاں سے بولتی رہی۔ عورتوں کا ایسا کرنا‘ تانک جھانک لگانا خود بے شرمی کی بات ہے‘ بڑی ہی واہیات بات ہے۔ (الافاضات صفحہ ۱۵۸) اور بعض رسمیں (اور باتیں) تو ایسی ہیں کہ ان کا ذکر بھی نہیں کیا جا سکتا۔ (التبلیغ صفحہ ۱۷۸ جلد ۱) حضرت سید صاحب اور مولانا عبد الحئی ; کا واقعہ فرمایا کہ جب حضرت سید صاحب بریلوی کا عقد ہو گیا (یعنی شادی ہو گئی) تو آپ نے رات گھر میں رہنے کی اجازت چاہی کیونکہ شادی سے پہلے تو باہر ہی سویا کرتے تھے۔ رات ختم ہونے کے بعد صبح کو حضرت کو غسل کرنے میں ذرا دیر ہو گئی اور جماعت کی دوسری رکعت میں آ کر شامل ہوئے نماز ختم ہونے کے بعد مولانا عبدالحئی رحمہ اللہ صاحب نے بیان فرمایا کہ لوگ اتباع سنت کا بڑا دعویٰ کرتے ہیں اور تکبیر اولیٰ الگ رہی نماز کی رکعت تک چھوڑتے ہیں۔ کیا اور سویرے (جلدی) غسل کرنے کا انتظام نہیں ہو سکتا تھا ؟ اس پر سید صاحب نے مولانا عبدالحئی صاحب رحمہ اللہ سے جو کہ سید