اسلامی شادی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا خود اٹھ کر ایک پیالہ پانی لائیں اس سے معلوم ہو اکہ نئی دلہن کو شرم میں اس قدر مبالغہ کرنا کہ چلنا پھرنا اور اپنے ہاتھ سے کوئی کام کرنا عیب سمجھا جائے یہ بھی سنت کے خلاف ہے۔ (حقوق الزوجین صفحہ ۴۵۲‘ اصلاح الرسوم صفحہ ۹۱) نئی دلہن کے لئے قید خانہ دلہن بیاہ ہو جانے کے بعد عجائب المخلوقات میں سے ہو جاتی ہے دور دور سے اس کو دیکھنے والیاں آتی ہیں اور وہ اس طرح انسان سے جماد بنادی جاتی ہے کہ نہ اس کی آنکھ رہے نہ زبان رہے نہ کسی طرف دیکھ سکتی ہے نہ بول سکتی ہے‘ پاخانہ پیشاب کو جانا ہو تو دوسرے پکڑ کر لے جاتے ہیں منہ پر ہاتھ ہوتا ہے بلکہ ہاتھ پر منہ ہوتا ہے کیونکہ دلہن دونوں گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر ہاتھوں پر منہ رکھتی ہے اس وقت دلہن بالکل مردہ بدست زندہ ہو جاتی ہے‘ اوپر والے جس طرح رکھیں اسی طرح رہنا پڑتا ہے۔ یہ سب کیا خرافات ہیں کون سی عقل ان باتوں کو اچھا بتاتی ہے اور اس قرنطینہ میں نماز تو بالکل ہی ناجائز ہو جاتی ہے تلاوت وغیرہ کاتوذکر ہی کیا۔ سب کام تو ہونگے لیکن جب نماز کا وقت آئے گا تو وہ خلاف حیاء ہے نماز کیسے پڑھوائیں اور اگر کوئی دلہن نماز کا نام لے اور وضو کے لئے پانی بھی مانگے تو بوڑھی عورتیں کائیں کائیں کر کے اس کے پیچھے پڑ جائیں کہ افسوس اب تو وہ زمانہ آ گیا کہ نئی دلہنوں کا دیدہ بھی نہیں چھپتا۔ (التبلیغ صفحہ ۱۷۸ جلد ۱) اگر کبھی وہ اپنے منہ سے پانی تک بھی مانگ بیٹھے تو چاروں طرف سے غل مچ جائے کہ ہائے ہائے کیسی بے حیائی کا زمانہ آ گیا ہے۔ (حقوق الزوجین صفحہ ۴۵۲) منہ دکھائی کی رسم بہو کو اتار کر گھر میں لاتے اور بٹھاتے ہیں‘ اس کے بعد بہو کا منہ کھولا جاتا ہے اور سب سے پہلے ساس یا خاندان کی بڑی عورت بہو کا منہ دیکھتی ہے اور کچھ منہ دکھائی دیتی ہے۔جو ساتھ والی کے پاس جمع ہوتا رہتا ہے۔ اس کی ایسی پابندی ہے کہ جس کے پاس منہ دکھائی نہ ہو وہ ہر گزہر گز منہ نہیں دیکھ سکتی۔ غرض اس کو واجبات میں سے قرار دیا ہے۔ جو صریح حدود شرعیہ سے تعدی (زیادتی) ہے۔ پھر اس کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی کہ اس کے ذمہ منہ پر ہاتھ رکھنا یہ کیوں فرض کیا گیا ہے۔ اس طرح اگر کوئی نہ کرے تو تمام برادری میں بے حیاء‘ بے عزت‘ بے شرم مشہور ہو جائے۔ بلکہ ایسا تعجب کریں جیسے کوئی مسلمان کافر بن جائے پھر بتلایئے یہ تعدی ہے یا نہیں؟ اسی شرم شرم میں اکثر دلہنیں نماز قضا کر ڈالتی ہیں اگر ساتھ والی نے پڑھوا دی تو خیر ورنہ مستورات کے مذہب میں اس کی اجازت نہیں کہ خود اٹھ کر یا کسی سے کہہ سن کر نماز کا انتظام کر لے اس کو حرکت کرنا بولنا چالنا اگر بدن میں کھجلی اٹھے تو کھجلانا‘ اگر جمائی یا انگڑائی کا غلبہ ہو تو جمائی یا انگڑائی لینا یا نیند آنے لگے تو لیٹ رہنا‘ اگر پیشاب پاخانہ خطا ہونے لگے تو اس کی اطلاع تک کرنا بھی عورتوں کے مذہب میں حرام بلکہ کفر ہے‘ خدا جانے اس نے کیا جرم کیاتھا کہ سخت کالی کوٹھڑی میں یہ مظلوم قید کی گئی ہے۔ پھر سب عورتیں منہ دیکھتی ہیں‘ اور بعض شہروں میں یہ خرافات ہے کہ مرد بھی دلہن