اسلامی شادی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بیوی اور بہو بنانے کے لئے لڑکی میں کیا دیکھنا چاہئے اس زمانہ میں منکوحہ (وہ لڑکی جس سے نکاح کیا جائے اس ) میں زیادہ تر جمال کو اور ناکح (نکاح کرنے والے مرد) میں زیادہ تر مال کو دیکھتے ہیں اور سب سے کم دین کو دیکھتے ہیں۔ اور باقی اوصاف میں آراء مختلف ہیں حالانکہ سب سے کم قابل التفات یہی مال جمال ہے اور سب سے زیادہ توجہ کے قابل دین ہی ہے اسی واسطے حدیث میں عورت کے بارے میں آیا ہے۔ ((تنکح المراۃ لاربع لحسبھا ولمالھا ولجمالھا و لدینھا فاظفر بذات الدین تربت یداک)) (مشکوٰۃ) ’’یعنی عورت سے چار وجہ سے نکاح کیا جاتا ہے شرافت کی وجہ سے‘ مال کی وجہ سے‘ خوبصورتی کی وجہ سے‘ اے مخاطب تجھ کو دین دار عورت سے نکاح کرنا چاہئے۔‘‘ اس (حدیث پاک) میں مال و جمال پر نظر نہ کرنے اور دین پر نظر کرنے کا امر فرمایا ہے۔ (اصلاح انقلاب صفحہ ۳۷) لڑکی میں جدید تعلیم دیکھنا اور نو تعلیم یافتہ سے شادی کرنا جس طرح بعض لوگ لڑکے کے ایف۔ اے‘ ایم۔ اے‘ ہونے کو بھی دیکھتے ہیں افسوس ہے کہ بعض نئے مذاق کے لوگ ایسی منکوحہ (لڑکی) تلاش کرتے ہیں جس نے نئی تعلیم حاصل کی ہو یا تعلیم کے ساتھ ڈاکٹری یا پروفیسری کا پاس بھی حاصل کر چکی ہو کوئی ان عقلاء سے پوچھے کہ اس سے مقصود کیا ہے۔ اگر یہ مقصود ہے کہ ان کا بار ہم پر کم ہو۔ یہ خود بھی کمانے میں امداد دیں۔ تب تو بے حد بے حمیتی ہے کہ مرد ہو کر عورت کے ہاتھ کو تکا جائے۔ عورت کا ممنون ہونا بغیر خلوص کامل کے خود خلاف غیرت ہے۔ اور اگر یہ مقصود ہے کہ ایسی عورت سلیقہ دار ہو گی ہم کو راحت زیادہ پہنچائے گی سو خوب سوچ سمجھ لو راحت رسانی کے لئے سلیقہ کافی نہیں بلکہ خلوص وطاعت اور خدمت گزاری کے جذبے کی اس سے زیادہ ضرورت ہے اور سلیقہ میں کچھ کمی بھی ہو تو اس کو برداشت کر لیا جاتا ہے اور اگرچہ کسی قدر وقتی تکلیف ہوتی ہے لیکن جلدی ختم ہو جاتی ہے اور اس کا اثر باقی نہیں رہتا۔ اور اگر نرا سلیقہ ہو اور وہ اوصاف نہ ہوں تو وہ خدمت ہی کیوں کرے گی‘ کیونکہ تجربے سے اس جدید تعلیم کا اثر یہ ثابت ہوا ہے کہ اس سے تکبر‘ خود غرضی‘ خودداری‘ بے باکی‘ آزادی‘ بے حیائی و چالاکی اور نفاق وغیرہ برے اخلاق پیدا ہو جاتے ہیں۔ پس جب انکا دماغ تکبر و نخوت سے پر ہے تو وہ تمہاری خدمت ہی کیوں کرے گی‘ جس سے تم کو راحت پہنچے بلکہ خود غرضی کی وجہ سے الٹا وہ خود تم ہی سے اپنے حقوق کا اعلیٰ پیمانہ پر مطالبہ کرے گی جس سے تمہاری عافیت و سلامتی تنگ ہو جائے گی‘ غرض وہ خود تم ہی سے اپنی خدمت چاہے گی اور اگرتم ان سے وہ خدمت چاہو گے جس کو ایک شریف سادہ عورت اپنا فخر سمجھتی ہے تووہ تم کو ضابطہ کا جواب دیں گی کہ یہ کام ہماے ذمہ نہیں بلکہ جو ان کے ذمہ ہو گا اس میں بھی خلاف تہذیب یا صحت خراب ہونے کا عذر کر کے ٹکا سا جواب دیں گی‘ اور اپنے حقوق تم سے پورے کریں گی تنخواہ تم سے کل رکھوا لیں گی‘ اور ٹال مٹول کرو گے تو عدالت پہنچیں گی۔ اور اگر یہ کہو کہ بہت کم ہے تو میں جواب میں عرض کروں گا کہ پھر وہ تعلیم یافتہ نہیں ہے اصل بات یہ ہے کہ نئے علوم (جدید تعلیم) کے عالم ہونے سے جاہل ہونا زیادہ بہتر