اسلامی شادی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
دینا مناسب ہے۔ (اصلاح انقلاب صفحہ ۱۳۸ جلد ۲) بیوی کا اپنے انتقال کے وقت مہر معاف کرنا درست نہیں اکثر عورتیں اپنے مرض الموت میں مہر معاف کر دیتی ہیں اور اس معافی سے شوہر بالکل بے فکر ہو جاتا ہے سو سمجھ لینا چاہئے کہ یہ معافی وارث کے لئے وصیت کی ایک صورت ہے اور یہ بغیر دوسرے ورثاء کی رضا مندی کے ناجائز ہے۔ پس اس معافی سے مہر معاف نہ ہو گا۔ البتہ شوہر کو جس قدر (مہر کی) میراث میں حصہ پہنچے گا وہ بے شک معاف ہو جائے گا۔ باقی اس کے ذمہ واجب الادا رہے گا۔ جو دوسرے وارثوں کو دیا جائے گا البتہ اگر سب ورثاء اس معافی کو جائز رکھیں تو کل معاف ہو جائے گا اور اگر بعض نے جائز رکھا یا بعض (ورثاء) نابالغ ہوں تو ان کے حصے کے بقدر معاف نہ ہوگا۔ (ایضاً صفحہ ۱۳۷ جلد ۲) بیوی کے انتقال کے بعد اس کے مہر میں اس کے ورثاء اولاد وغیرہ کا بھی حق ہے جس کا ادا کرنا ضروری ہے مہر کے بارے میں ایک کوتاہی یہ ہوتی ہے کہ اگر متوفی بیوی کے ورثاء اس کے ماں باپ یا بھائی وغیرہ ہوتے ہیں تب تو ان کے مطالبہ پر شوہر ان کا حصہ مہر (کی میراث میں سے) دیتا ہے اور اگر خود اسی کی اولاد وارث ہوئی تو چونکہ وہ مطالبہ نہیں کر سکتے۔ (چھوٹا ہونے کی وجہ سے) اور یہ ان کا حق ادا نہیں کرتا یہ فعل سراسر ظلم اور خیانت ہے ان کا یہ حق امانت ہے اسے اولاد کے نام سے جمع رکھنا چاہئے اور خاص ان کے مصالح میں صرف کرنا چاہئے۔ خود (اپنے اوپر) خرچ کرنا حرام ہے۔ اسی طرح ان بچوں کو ان کی ماں سے جو میراث پہنچی ہو ان سب کی حفاظت ان کے ذمہ فرض ہے اس میں بے جا تصرف کرنا حرام ہے۔ (اصلاح انقلاب صفحہ ۱۳۸ جلد ۲) مہر مانع زکوٰۃ نہیں بعض لوگ دَین مہر کو مانع وجوب زکوٰۃ (یعنی زکوٰۃ کے وجوب کو روکنے والا) سمجھتے ہیں۔ یعنی جس شخص کے ذمہ مہر واجب ہو وہ یوں سمجھتا ہے کہ چونکہ میں اتنے کا قرض دار ہوں اس لئے مجھ پر اتنے مال میں زکوٰۃ واجب نہیں لیکن صحیح یہ ہے کہ وہ مانع نہیں چنانچہ شامی نے کہا ہے ((والصحیح انہ غیر مانع)) (صفحہ ۸ جلد ۲) خلاصہ یہ کہ مہر مانع زکوٰۃ ہے یعنی اس قرض کے ہوتے ہوئے بھی شوہر پر زکوٰۃ واجب رہتی ہے۔ (اگر نصاب زکوٰۃ موجود ہو) اور مہر موجب زکوٰۃ نہیں ہے (یعنی عورت پر بھی اس کی زکوٰۃ واجب نہیں) جب تک کہ وصول نہ ہو جائے اور وصول ہونے کے بعد بھی گزشتہ زمانہ کی زکوٰۃ واجب نہ ہو گی تازہ زکوٰۃ ہو گی۔ ((کذا فی الدر المختار)) (اصلاح انقلاب صفحہ ۱۳۸ جلد ۲)