اسلامی شادی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جہیز کا بیان طلب و خواہش کے بغیر خلوص کے ساتھ اگر لڑکے کو کچھ ملے تو اللہ کی نعمت ہے اگر خلوص کامل سے شوہر کی خدمت کی جائے بغیر اس کے کہ شوہر کو اس کی خواہش (یا طلب) یا اس پر نظر یا اس کی نگرانی اور انتظار ہو تو مضائقہ نہیں (جس کی دلیل یہ آیت قرآنی ہے) {وَوَجَدَکَ عَائِلًا فَاَغْنٰی} ’’اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو نادار پایا سو مالدار بنایا۔‘‘ ((واشترط عدم التطلع والتشرف بقولہ علیہ السلام ما اتاک من غیر اشراف فخذوہ ومالا فلا تتبعہ نفسک او کما قال p)) ’’اور مال ملنے کا انتظار اور اس پر نظر نہ ہونا شرط ہے۔ کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو کچھ تمہارے پاس بغیر اشراف نفس (یعنی خواہش و طلب کے بغیر) آجائے اسے لے لو‘ اور جو تمہارے پیچھے نہیں آتا اس کے پیچھے نہ پڑو۔‘‘ (اصلاح انقلاب صفحہ ۴۶ جلد ۲) جہیز کی حقیقت اور اس کا حکم بری اور جہیز یہ دونوں در حقیقت زوج (لڑکے والوں کی ) طرف سے زوجہ یا اہل زوجہ (لڑکی والوں) کو ہدیہ ہیں۔ اور جہیز جو درحقیقت اپنی اولاد کے ساتھ صلہ رحمی ہے۔ فی نفسہٖ امر مباح بلکہ مستحسن ہے۔ (اصلاح الرسوم صفحہ ۵۶) اگر خدا کسی کو دے تو بیٹی کو خوب جہیز دینا برا نہیں مگر طریقہ سے ہونا چاہئے‘ جو لڑکی کے کچھ کام بھی آئے۔ (حقوق البیت صفحہ ۵۳) جہیز دینے میں چند باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے جہیز میں ان امور کا لحاظ رکھنا چاہئے۔ اول اختصار یعنی گنجائش سے زیادہ کوشش نہ کرے۔ ! دوم ضرورت کا لحاظ کرے‘ یعنی جن چیزوں کی سر دست ضرورت واقع ہو وہ دینا چاہئے۔ " اعلان نہ ہو کیوں کہ یہ تو اپنی اولاد کے ساتھ صلہ رحمی ہے دوسروں کو دکھلانے کی کیا ضرورت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے فعل سے جو اس روایت میں مذکور ہے تینوں امر ثابت ہیں۔ (اصلاح الرسوم صفحہ ۹۳) حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کا جہیز سیدۃ النساء حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کا جہیز یہ تھا دو یمنی چادریں‘ دو نہالی جس میں السی کی چھال بھری تھی‘ اور چار گدے‘ چاندی کے دو بازو بند اور ایک کملی‘ اور تکیہ اور ایک پیالہ اور ایک چکی اور ایک مشکیزہ رکھنے کا برتن یعنی گھڑا اور بعض روایتوں میں ایک پلنگ بھی آیا ہے۔ (ازالۃ الخفاء‘ اصلاح الرسوم صفحہ ۹۳)