اسلامی شادی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
چھوارے ہی مقصود بالذات نہیں ایک نکاح میں چھوارے تقسیم ہوئے تھے اس پر فرمایا کہ خرما (چھوارے) کی تخصیص سنت مقصودہ نہیں۔ اگر کشمش ہوتی تو وہ تقسیم ہو جاتی اس سے بھی سنت ادا ہو جاتی یہاں چونکہ یہی تھے اس لئے یہی تقسیم ہو گئے۔ (حسن العزیز صفحہ ۳۸۸ جلد ۳) حضرت گنگوہی رحمہ اللہ کا فتویٰ نکاح کے وقت چھوارے لٹانا مباح ہے مگر اس وقت میں نہ (لٹانا) چاہئے کیونکہ حاضر کو تکلیف ہوتی ہے ایسے جزئی عمل کو کرنا کچھ ضروری نہیں اگرچہ ایسا لٹانا درست ہو مگر یہ (چھوارے لٹانے والی) روایت چنداں معتمد نہیں اور اس کے فعل سے اکثر چوٹ آ جاتی ہے اگر مسجد میں نکاح ہو تو مسجد کی بے حرمتی بھی ہوتی ہے لہٰذا حدیث ضعیف پر عمل کر کے مسلم کی اذیت کا موجب ہونا ہے اور مسجد کی شان کے خلاف فعل ہونا مناسب نہیں اور اس روایت کو لوگوں نے ضعیف لکھا ہے۔ (فتاویٰ رشیدیہ مطبوعہ رحیمیہ صفحہ ۴۵۹‘ ۴۶۷) مہر کا بیان مہر اور گواہوں کی تعیین کا راز نکاح میں یہ بات متعین ہوئی کہ مہر مقرر کیا جائے تاکہ خاوند کو اس نظم و تعلق (نکاح) کے توڑنے میں مال کے نقصان کا خطرہ لگا رہے اور بلا ایسی ضرورت کے جس کے بغیر اس کو چار نہ ہو اس پر جرأت نہ کر سکے پس مہر کے مقرر کرنے میں ایک قسم کی پائیداری ہے مہر کے سبب سے نکاح و زنا میں امتیاز ہو جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ رسوم سلف (پہلے لوگوں کے رواج) میں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے وجوب مہر کو بدستور باقی رکھا ہے۔ (المعالح العقلیہ صفحہ ۲۱۰) گواہوں کی تعیین کا راز سب انبیاء و ائمہ اس بات پر متفق ہیں کہ نکاح کو شہرت دی جائے تا کہ حاضرین کے سامنے اس میں اور زنا میں تمیز ہو جائے لہٰذا گواہ بھی مقرر ہوئے اور مزید شہرت کے لئے مناسب ہے کہ ولیمہ کیا جائے‘ اور لوگوں کو اس میں دعوت دی جائے اس کا اظہار کیا جائے کہ دوسرے لوگوں کو بھی خبر ہو جائے اور بعد میں کوئی خرابی پیدا نہ ہو۔ (المصالح العقلیہ صفحہ ۲۱۱) مہر کے سلسلے میں عام رجحان اور سخت غلطی ایک کوتاہی جو بعض اعتبار سے سب سے زیادہ سخت ہے یہ ہوتی ہے کہ اکثر لوگ مہر دینے کا ارادہ ہی دل میں نہیں رکھتے پھر خواہ بیوی بھی وصول کرنے کا ارادہ نہ کرے اور خواہ طلاق یا موت کے بعد اس کے ورثاء بھی وصول کرنے کی کوشش کریں یا نہ کریں لیکن ہر حال میں شوہر کی نیت ادا کی نہیں ہوتی۔