اسلامی شادی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جب کسی اہم کام کا ارادہ کرے تو چاہئے کہ دو رکعت نفل پڑھے۔ اور یہ دعاء پڑھے (اگر یاد نہ ہو تو دیکھ کر پڑھ لے دیکھ کر نہ پڑھ سکتا ہو تو دوسری کسی زبان میں اور اپنے الفاظ میں بھی یہ دعا ء پڑھی جا سکتی ہے۔ لیکن عربی کے منقول الفاظ سے دعاء پڑھنا زیادہ بہتر اور مسنون ہے) ((اللھم انی استخیرک لعلمک واستقدرک بقدرتک واسئلک من فضلک العظیم فانک تقدر و لا اقدر و تعلم ولا اعلم و انت علام الغیوب اللھم ان کنت تعلم ان ھذا الامر خیر لی فی دینی ومعاشی وعاقبۃ امری فاقدرہ لی و یسرہ لی ثم بارک لی فیہ وان کنت تعلم ان ھذا الامر شرلی فی دینی ومعاشی وعاقبۃ امری فاصرفہ عنی واصرفنی عنہ واقدرلی الخیر وحیث کان ثم ارضنی بہ)) ’’یا اللہ میں خیر چاہتا ہوں آپ سے آپ‘ کے علم کی وجہ سے اور قدرت طلب کرتا ہوں آپ سے آپ کی قدرت کی وجہ سے اور میں آپ سے آپ کے بڑے فضل سے سوال کرتا ہوں کیونکہ آپ قادر ہیں اور میں قادر نہیں۔ اور آپ عالم ہیں اور میں عالم نہیں اور آپ تو علام الغیوب ہیں‘ یا اللہ اگر آپ کے علم میں میرے لئے یہ کام بہتر ہو میرے دین میں اور میرے معاش اور انجام کار میں تو اس کو تجویز کر دیجئے اور اس کو میرے لئے آسان کر دیجئے‘ پھر میرے لئے اس میں برکت دیجئے اور اگر آپ کے علم میں یہ کام میرے لئے برا ہو میرے دین اور معاش اور میرے انجام کار میں تو اس کو مجھ سے ہٹا دیجئے‘ اور مجھے بھلائی نصیب کر دیجئے جہاں بھی کہیں ہوں پھر مجھ کو اس پر راضی رکھئے‘‘ (مناجات مقبول تتمہ قربات صفحہ ۲۴۸) (خط کشیدہ الفاظ میں اصل مقصود جس کام کیلئے استخارہ کر رہا ہو اس کا تصور کرے) نکاح کے لئے استخارہ کی ضرورت حق تعالیٰ کے ساتھ یہ خفی (پوشیدہ) بے ادبی ہے کہ استخارہ کرنے سے گھبراتے ہیں۔ اور اس کی حقیقت (وجہ) یہ ہے کہ حق تعالیٰ پر اطمینان نہیں ہے کہ حق تعالیٰ جو کریں گے وہ خیر ہی ہو گا۔ بس اپنے ذہن میں جس جانب کو خیر قرار دے لیا اسی کو خیر سمجھتے ہیں تب ہی تو تردد کے لفظ کو (یعنی یہ کہ یااللہ اگر یہ بہتر ہو تو کر دیجئے) نہیں اختیار کرتے۔ خواجہ صاحب نے عرض کیا ’’درکار خیر حاجت استخارہ نیست‘‘ (اچھے کام میں استخارہ کی کوئی ضرورت نہیں ) فرمایا ہر کام خیر و شر کو مستلزم ہو سکتا ہے دیکھئے حضرت زینب رضی اللہ عنھا کو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے نکاح کا پیغام دیا انہوں نے باوجود اس کام میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی رضامندی ہونے کے جس کے کار خیر میں شبہ ہی نہیں ہو سکتا عرض کیا ((لا حتی استشیر ربی)) ’’یعنی میں ابھی (نکاح کے بارے میں) کچھ نہیں کہتی جب تک کہ اپنے رب سے مشورہ نہ کر لوں‘‘۔ اور پھر استخارہ کیا۔ فرمایا استخارہ کا یہ کیا موقع تھا۔ بات یہ ہے کہ ہر کام میں خیر و شر کا احتمال ہو سکتا ہے۔ حتیٰ کہ ایسا صریح نیک کام بھی شر کو مستلزم ہو سکتا ہے اسی طرح مثلاً نکاح کے حقوق ادا نہ ہو سکین۔ خدمت و طاعت میں کمی ہو تو یہ نکاح اور وبال کا باعث ہو اس واسطے حضرت زینب نے استخارہ کی ضرورت سمجھی۔ (حسن العزیز صفحہ ۲۳۴‘۲۳۵)