اسلامی شادی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
--- نکاح خوانی اور اس کے متعلقات نکاح کی مجلس اور اس میں خصوصی اجتماع (حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کا عقد نکاح فرمایا) تو ارشاد فرمایا کہ اے انس جائو اور ابوبکر و عمر و عثمان و زبیر اور انصار کی ایک جماعت کو بلا لائو۔ اس سے معلوم ہوا کہ نکاح کی مجلس میں اپنے خاص لوگوں کو مدعو کرنے میں کچھ مضائقہ نہیں اور حکمت اس میں یہ ہے کہ نکاح میں اشتہار و اعلان ہو جائے جو کہ مطلوب ہے‘ مگر اس اجتماع میں غلو و مبالغہ نہ ہو وقت پر بلا تکلف جو دو چار آدمی قریب و نزدیک کے جمع ہو جائیں (وہ کافی ہیں)۔ (اصلاح الرسوم صفحہ ۹۰) ایک واقعہ میرے ایک دوست تحصیل دار صاحب ہیں ان کو اپنی دختر کی تقریب کرنا تھی‘ ماشاء اللہ انہوں نے نہایت تدین و خلوص سے کام لیا‘ ہمت کی اور سب رسموں کو چھوڑا اور سبکی کچھ پرواہ نہ کی اور کمال یہ کہ میرے پاس تشریف لائے اور مجھ کو نکاح پڑھانے کے لئے وطن لے جانا چاہا میں نے کچھ عذر کیا تو انہوں نے سفر ہی میں اس کام کو تجویز کر دیا اور یہ تجویز ہو گئی کہ اسی جلسہ میں عقد کر دیا جائے۔ اس میں دو مصلحتیں ہو گئیں ایک تو سنت سے اس گھر میں بھی برکت ہو گی اور دوسرے یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ نکاح یوں بھی ہوتا ہے اور احادیث سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ نکاح نہایت سادہ چیز ہے۔ (حقوق الزوجین صفحہ ۳۴۷) نکاح کون پڑھائے (حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کی شادی میں ) حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک بلیغ خطبہ پڑھ کر ایجاب و قبول کرایا۔ اس سے معلوم ہو اکہ باپ کا چھپے چھپے پھرنا یہ بھی خلاف سنت ہے۔ بلکہ بہتر یہ ہے کہ باپ خود اپنی دختر کا نکاح پڑھ دے کیونکہ یہ ولی ہے جبکہ دوسرا نکاح پڑھانے والا وکیل اور ولی کو بہرحال وکیل سے ترجیح ہوتی ہے نیز حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت بھی یہی ہے۔ (اصلاح الرسوم صفحہ ۹۱) ! اس کا بہت اہتمام ہونا چاہئے کہ نکاح پڑھنے ولا خود عالم ہو یا کسی عالم سے خوب تحقیق سے نکاح پڑھوائے۔ اکثر جگہ قاضی صاحبان نکاح کے مسائل اور ان کے متعلقات سے محض نا واقف ہوتے ہیں حتیٰ کہ بعض مواقع پر یقینا نکاح بھی درست نہیں ہوتا تمام عمر بدکاری ہوا کرتی ہے اور بعض ایسے طماع (لالچی) ہوتے ہیں کہ لالچ میں آکر جس طرح سے فرمائش کی جائے کر گزرتے ہیں خواہ نکاح ہو یا نہیں۔ (اصلاح الرسوم صفحہ ۶۷) نکاح خوانی کی اجرت کا مسئلہ