اسلامی شادی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حقوق بھی ضائع ہوتے ہیں اور بعض مقامات پر شرمندگی بھی ہوتی ہے‘ کسی مہمان کو روٹی کم دے دی‘ کسی سائل حاجت مند کو محروم کر دیا‘ اور اگر وہ بچپن سے کھانے پینے کھلانے پکانے میں رہی ہو گی تو راحت و انتظام کی زیادہ امید ہے۔ اور وہ مضرت (نقصان) یہ ہے کہ بعض کو دیکھا گیا ہے کہ اچانک مال و دولت (کی کثرت) کو دیکھ کر آنکھیں پھٹ جاتی ہیں اور اچھلنے لگتی ہے اور سلیقہ ہوتا نہیں پس بے تمیزی سے اس کو اڑانا شروع کر دیتی ہے‘ چنانچہ اکثر نو دولتوں (نئے مالداروں) کو یا بخل کی بلا میں مبتلا پایا یا اسراف میں‘ ان میں اعتدال کم ہوتا ہے کیونکہ اموال سے منتفع ہونے کی عادت نہیں تھی جو اعتدال سیکھتی۔ اور اکثر دیکھا گیا ہے کہ خاوند کے گھر سے اس کو محبت نہیں ہوتی‘ نقد الگ جنس الگ کبھی ظاہر میں کبھی خفیہ طور پر جس طرح بن پڑتا ہے اپنے میکہ والوں کو بھرنا شروع کر دیتی ہے اور عمر بھر یہی نزلہ بہتا رہتا ہے اور اس سے گھر میں بے برکتی ہوتی ہے۔ مرد کماتا کماتا تھک جائے مگر وہ اڑانے سے نہیں تھکتی اس لئے مناسب یہی ہے کہ جہاں تک ہو سکے اپنے برابر والوں میں نکاح کا معاملہ کر و تاکہ سب مصلحتیں محفوظ رہیں‘ اور کسی کی طبیعت ہی خاص رنگ کی ہو اس کا ذکرنہیں۔ (اصلاح انقلاب صفحہ ۴۳ جلد ۲) غریب لڑکی سے شادی کرے یا مالدار گھر کی لڑکی سے پہلے تو عقلاء کی یہ رائے تھی کہ غریب کی لڑکی سے شادی کرنی چاہئے مگر ان واقعات کی وجہ سے (جن کا اشارہ کیا گیا اور آگے آ رہا ہے) اب بہت لوگوں کی رائے یہ ہے کہ غریب کی لڑکی ہر گز نہ لینی چاہئے کیونکہ وہ اپنے ماں باپ کو غریب دیکھ کر شوہر کا سارا مال لگا دیتی ہے۔ خیر میں تو یہ رائے نہیں دیتا میری رائے تو یہ ہے کہ آدمی اپنے برابر کی لڑکی سے شادی کرے‘ کیونکہ اگر اپنے سے زیادہ امیر کی لڑکی سے شادی کی تو وہ حریص نہ ہو گی نہ اپنے گھر والوں کو بھرے گی‘ مگر بد دماغ ہو گی اور شوہر کی اس کی نگاہ میں کچھ قدر نہ ہوگی‘ اور غریب کی لڑکی سے کیا تو وہ حریص بھی ہو گی‘ ہر ایک چیز کو دیکھ کر اس کی رال ٹپکے گی اور اپنے عزیزوں کو بھی بھرے گی۔ خیر یہ بات تو تجربہ سے متعلق ہے‘ میرا مطلب یہ ہے کہ عورتیں مال کے صرف کرنے میں ایسی بے احتیاطیاں کرتی ہیں جن کی وجہ سے عقلاء کو یہ سوچ پیدا ہو گئی کہ امیر کی لڑکی لینی چاہئے یا غریب کی۔ اور اس بے احتیاطی کی وجہ سے نوبت یہ پہنچ گئی کہ اب بہت سے عقلاء غریب کی لڑکی لینے کو برا سمجھتے ہیں۔ (دین و دنیا‘ اسباب الغفلہ صفحہ ۴۹۵) لڑکے اور لڑکی کا انتخاب