اسلامی شادی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
رسوم کیوں نہ کی گئیں۔ مجھ کو جب یہ معلوم ہوا تو میں نے لڑکی والوں سے کہا کہ صاف کہہ دو اگر جی چاہے تو شریک ہو جائیں ورنہ اپنے گھر بیٹھے رہیں۔ ہمیں ان کے شریک کرنے کی ضرورت نہیں۔ ان لوگوں نے دعوت ہی قبول نہ کی تھی‘ مگر میرا یہ صاف جواب سن کر سب سیدھے ہو گئے اور سب ہاتھ دھو دھو کر دسترخوان پر آ کے بیٹھ گئے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ لڑکی کی ماں اس اختصار (سادگی) سے بڑی شکر گزار ہوئیں‘ اور کہنے لگیں اگر زیادہ بکھیڑا ہوتا تو میرے پاس ایک سونے کا ہار تھا وہ بھی جاتا اور قرض بھی لینا پڑتا۔ یہ لڑکی کی ماں میرے بڑے گھر کی حقیقی خالہ ہوتی تھیں اس لئے میں بھی ان کو عرفاً خالہ ہی کہتا تھا میں نے ان سے پوچھا کہ لڑکی کو کس وقت رخصت کرو گی‘ کہنے لگی جلدی تو ہو نہیں سکتی اس لئے کہ جلدی میں نہ تو کچھ کھائو گے نہ ٹھہرو گے۔ میں نے کہا کہ کھانا تو پکا کر ساتھ کر دو جہاں بھوک لگے گی کھا لیں گے‘ اور ٹھہرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ جب انہوں نے پھر اپنی رائے کا اعادہ کیا تو میں نے کہا اچھا جب تم رخصت کرو گی‘ ہم اسی وقت چلے جائیں گے۔ لیکن یہ بات یاد رکھو کہ اگر دیر سے رخصت کیا تو ظہر کی نماز کا وقت راستہ میں ہو گا اور میں اپنے اہتمام میں لڑکی کی نماز قضا نہ ہونے دوں گا تو لڑکی کو گاڑی سے اترنا پڑے گا اور یہ بھی تم سمجھتی ہو کہ لڑکی نئی نویلی ہو گی اور پہنے اوڑھے ہو گی‘ عطر تیل خوشبو وغیرہ بھی لگا ہو گا اور یہ مشہور ہے کہ کیکر وغیرہ درخت پر بھتنی (چڑیل) وغیرہ رہا کرتی ہیں۔ سو اگر کوئی بھتنی چمٹ گئی تو میں ذمہ دار نہیں چونکہ عورتوں کے مذاق کے مطابق گفتگو تھی۔سمجھ میں آ گئی فوراً کہنے لگیں نہ بھائی میں نہیں روکتی‘ جب تمہارا جی چاہے جا سکتے ہو۔ میں نے کہا فجر کی نماز کے بعد فوراً ہی سوار کردو۔ انہوں نے قبول کر لیا۔ پیسے بکھیرنے اور لٹانے کی رسم اب جب صبح ہوئی اور چلنے کا وقت ہوا تو ایک رسم ہے ’’بکھیر‘‘ کہ دلہن کو رخصت کے وقت بستی کے اندر اندر کچھ روپے پیسے کی بکھیر کی جاتی ہے (یعنی لٹائے جاتے ہیں) میں نے یہ کیا کہ کچھ روپے مساکین کو تقسیم کر دیئے اور کچھ مساجد میں دے دیئے۔ محض اس وجہ سے کہ لوگ بخل و د ناء ت کا شبہ نہ کریں۔ اس سادگی کے متعلق یہ روایت سنی گئی ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ شادی اس کو کہتے ہیں کہ قلب کے اندر تازگی‘ شگفتگی اور انشراح معلوم ہوتا ہے۔ یہ دنیا داروں نے کہا۔ واقعی شریعت پر عمل کرنے سے ایک نور پیدا ہوتا ہے۔ (الافاضات الیومیہ صفحہ ۳۶۰ تا ۳۶۱ جلد ۲) ایک نکاح میں حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی سرپرستی کا قصہ ہم ایک شادی میں دولہا کے سرپرست بن کر گئے تھے اور یہ پہلے سے طے ہو گیا کہ کوئی رسم نہ ہو گی خیر عصر کے بعد نکاح تو ہو گیا اور مغرب کے بعد کھانا آیا تو نائی ہاتھ دھلا کر منتظر تھا کہ اب کچھ ملے گا مگر کچھ بھی نہ ملا کھانے کے بعد پھر منتظر رہا۔ آخر ایک طباق میرے سامنے رکھ کر (گویا جھولی اور دامن پھیلاکر) زبان سے کہا حضور ہمارا حق دیجئے ہم نے کہا کہ کیسا حق ؟ حق قانونی یا حق رسمی؟ میں نے کہا اپنے آقا سے کہو انہوں نے تمام رسموں کے بند ہونے کو کیوں منظور کر لیا تھا۔ اس وقت ایک مولوی صاحب بھی کھانے میں موجود تھے انہوںنے آہستہ سے کہا یہ تو رسم نہیں بلکہ حق خدمت ہے‘ خدمت گزار کو دینا اچھی بات ہے مگر میں نے بآواز بلند کہا کہ حق