اسلامی شادی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تلذذ (لذت حاصل کرنا) حرام ہے۔ اس لئے کہ اس تلذذ کا محل کبھی حلال نہیں ہوا۔ جس میں تمتع بالحلال کا شبہ ہو سکے حدیث پاک کی تصریح سے قلب کے ذریعہ اشتہاء و تمنا کرنا زنا (میں داخل ) ہے گو درجات میں کچھ تفاوت ہو مگر نفس معصیت میں اشتراک ہے۔ اگر کسی عورت سے نکاح ہو چکا تھا مگر طلاق وغیرہ کی وجہ سے اس کا نکاح زائل ہو گیا اور وہ زندہ ہے خواہ کسی سے نکاح کر لیا ہو یا نکاح نہ کیا ہو اور اس کے تصور سے لذت حاصل کی کہ جب یہ نکاح میں تھی تو اس سے اس طرح تمتع کیا کرتا تھا۔ یہ تلذذ بھی حرام ہے۔ اور اسی صورت میں یہ عورت کسی اور سے نکاح کر کے مر گئی تو اس کے تصور سے بھی تلذذ حرام ہے کیونکہ دوسرے سے نکاح کرنے کی وجہ سے وہ اس سے بالکل ایسی بے تعلق ہو گئی جیسے اس تصور کرنے والے کے ساتھ نکاح سے پہلے تھی۔ اور اگر وہ عورت اس شخص کے نکاح میں مر گئی تو میرے ذوق میں جواز کی ترجیح معلوم ہوتی ہے۔ (امداد الفتاوی ملحضاً صفحہ ۱۷۰ جلد ۴) نکاح سے قبل لڑکا لڑکی کی رائے اور رضا مندی معلوم کرنا بھی ضروری ہے ایک کوتاہی یہ ہے کہ اکثر مواقع میں متناکحین (نکاح کرنے والے لڑکا و لڑکی) کی مرضی حاصل نہیں کی جاتی۔ تعجب ہے کہ نکاح جو کہ عمر بھر کیلئے دو شخصوں کا تعلق ہے جس کے ساتھ ہزاروں معاملات وابستہ ہیں وہ (تعلق تو ہو) کسی اور کا اور رائے ہو دوسرے کی گو ان دونوں کے مصالح کے خلاف ہو اور گو وہ اپنی ناخوشی بھی ظاہر کرتے ہوں مگر ان سے ذرا بھی نہ پوچھا جائے اور زبردستی نکاح کر دیا جائے۔ بعض دفعہ عین وقت تک متناکحین یا ان میں سے ایک برابر انکار کرتا ہے مگر اس کو جبر کر کے خاموش کر دیا جاتا ہے اور عمر بھر کی مصیبت میں اس کو جوت دیا جاتا ہے کیا یہ عقل و نقل کے خلاف نہیں ہے۔ اور کیا اس میں ہزاروں خرابیوں کامشاہدہ نہیں کیا جاتا۔ کیسا ظلم و ستم ہے کہ بعض مہمل مصلحتوں کو پیش نظر رکھ کر ان کے خیال کی پرواہ نہیں کی جاتی اور ان کو گھونٹ داب کی اس بلا میں پھنسا دیا جاتا ہے۔ (اصلاح انقلاب صفحہ ۳۴ جلد ۲) لڑکا لڑکی کی مرضی کے بغیر شادی کر دینے کا انجام بہت سے مقامات ایسے ہیں کہ نا پسندیدگی کی حالت میں بھی نکاح کر دیا گیا پھر ناکح (شوہر) صاحب نے عمربھر اس منکوحہ (بیوی) کی خبر نہیں لی‘ اور سمجھانے پر صاف جواب سا دیا کہ میں نے تو اپنی رائے ظاہر کر دی تھی جنہوں نے یہ عقد کیا ہے وہی اس کے ذمہ دار ہیں۔ اب بتلایئے کہ اس کا کیاعلاج ہے ان بزرگوں کی تو مصلحت ہوئی اور غریب مظلوم (عورت) قید میں گرفتار ہوئی۔ کہاں ہیں یہ فرسودہ عقل والے اب آئیں اور اس مظلومہ کی مدد کریں مگر مدد کیا کرتے اس وقت تک مرکھپ بھی گئے اور زندہ بھی رہ گئے تو یہ بات کہہ کر الگ ہو گئے کہ صاحب کوئی کسی کی قسمت میں تو گھس کر نہیں گیا ہم کیا کریں اس کی قسمت‘ ہائے غضب‘ کیا غضب کا جواب ہے جس سے بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔ (ایضاً صفحہ ۳۴ جلد ۲) ایسا ذہن میں آتا ہے کہ ایسا کہنے والے کا گلا گھونٹ دوں اس کا تو یہ مطلب ہے کہ