اسلامی شادی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
صفحہ ۲۴۹ جلد ۸) حضرت تھانوی رحمہ اللہ کا تجربہ چنانچہ خود مجھ کو اس کا اندازہ ہوا کہ میری ایک اہلیہ کا مہر پانچ ہزار ( اس زمانہ کے) اور دوسری بیوی کا پانچ سو تھا۔ بفضلہ تعالیٰ دونوں ادا کئے گئے مگر پہلے مہر کی ادائیگی میں جو کچھ گرانی ہوئی اگر والد صاحب مرحوم کا ذخیرہ اس میں اعانت نہ کرتا تو وہ گرانی ضرور کدورت (اور رنجش) کی صورت پیدا کرتی اور دوسرا مہر صرف فتوحات یومیہ کی آمدنی سے بہت آسانی سے ادا ہو گیا اور قلب پر کوئی بار نہیں پڑا۔ پھر اگر اس کوشش کے بعد بھی ادا نہ ہو سکا تو نفس میں ایک دوسری کم ہمتی پیدا ہوتی ہے جو خلاف غیرت ہے وہ یہ کہ عورت سے مہر معاف کرایا جائے یہ درخواست ہی ذلت سے خالی نہیں۔ (اصلاح انقلاب صفحہ ۱۳۳ جلد ۲) وسعت سے زیادہ مہر مقرر کرنے کا انجام بہت جگہ طلاق یا (بیوی کی) موت کے بعد (مہر کا) دعویٰ ہوا ہے اور چونکہ تعداد میں لاکھوں تک مہر تھا (اس کی وجہ سے) تمام جائداد سب کی سب مہر کی نذر ہو جاتی ہے اور شوہر یا اس کے ورثاء اس کی بدولت (مفلس ہو کر) نان شبینہ (یعنی رات کے کھانے) تک کے محتاج ہو جاتے ہیں۔ {خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ} (یعنی دنیا بھی گئی آخرت بھی کھوئی) (ایضاً صفحہ ۱۳۲) بیوی کے نہ چھوڑنے اور طلاق کے ڈر سے مہر زیادہ مقرر کرنا بعض عقلاء مہر کی زیادتی میں یہ مصلحت سمجھتے ہیں کہ چھوڑ نہ سکے گا‘ اگرمہر کم ہو تو شوہر پر کوئی بار نہیں پڑتا اور اس کو اس امر سے کوئی مانع نہیں ہوتا‘ کہ اس کو چھوڑ کر دوسری کر لے اور کثرت مہر میں ذرا رکاوٹ رہتی ہے یہ عذر بالکل لغو ہے جن کو چھوڑنا ہوتا ہے وہ چھوڑ ہی دیتے ہیں خو اہ کچھ بھی ہو۔ دوسرے نہ چھوڑ سکنا ہر جگہ تو مصلحت نہیں ہے۔ (کیونکہ) جو لوگ مہر کے مطالبہ کے خوف سے نہیں چھوڑتے وہ چھوڑنے سے بد تر کر دیتے ہیں یعنی تطلیق کی جگہ تعلیق عمل میں لاتے ہیں‘ کہ نکاح سے نہیں نکالتے مگر حقوق بھی ادا نہیں کرتے ان کا کوئی کیا کر لیتا ہے جس شخص کے دل میں خدا کاخوف نہ ہو تو اس کو کوئی چیز کسی امر سے نہیں روک سکتی کیا ایسے واقعات پیش نظر نہیں ہیں کہ بڑے بڑے مہروں کے مقروض ہیں اور اس کے باوجود منکوحہ کا کوئی حق ادا نہیں کرتے اور نہ دوسری طرف متوجہ ہونے سے رکتے ہیں خواہ وہ حلال ہو یا حرام۔ ایسے ظالموں کا کوئی کچھ بھی نہیں کر سکتا خواہ اس وجہ سے کہ وہ صاحب وجاہت (با رعب شخصیت) ہے اس سے ڈرتے ہیں۔ خواہ اس وجہ سے کہ اس کے پاس کچھ ہے نہیں اور نرا جیل خانہ بھیجنے پر کیا ملتا ہے پھر داماد کے جیل خانہ جانے سے اپنی بیٹی کو کیا آرام ملا۔ (اصلاح انقلاب صفحہ ۱۳۵ جلد ۲) مہر کم مقرر کرنے میں بے عزتی کا شبہ بعض لوگ یہ مصلحت بیان کرتے ہیں کہ قلت (مہر کم مقرر کرنے میں) ذلت اور کثرت (زیادہ مقرر کرنے میں) عزت ہے سو اول تو ہر قلت (کمی) جب کہ درجہ اعتدال پر ہو ذلت نہیں۔ دوسرے اگر یہ مصلحت بھی ہو مگر اس کے مفاسد بے شمار ہوئے تو وہ مصلحت کب حاصل کرنے کے قابل ہو گی۔ تیسرے اگر اظہار فخر کے ساتھ ادا کرنے کی