اسلامی شادی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کو راجح سمجھتا ہے۔ اور وسعت کا تدارک محنت مزدوری یا قرض سے کر لے جس کی ادائیگی کی پکی نیت رکھے اور ادا کی کوشش بھی کرے اور اگر اس پر بھی ادا نہ ہو سکا تو امید ہے کہ حق تعالیٰ اس کے قرض خواہ کو راضی فرما دیں گے کیونکہ اس نے دین کی حفاظت کیلئے نکاح کیا تھا اس میں مقروض ہو گیا تھا۔ مگر فضولیات کے لئے یہ قرض جائز نہیں۔ بلکہ صرف نان و نفقہ کے لئے یا مہر کیلئے جہاں مہر فوراً لیا جاتا ہے۔ (اصلاح انقلاب صفحہ ۳۹‘ ۴۰ جلد ۲) جس کو نکاح کرنے کی حیثیت نہ ہو وہ کیا کرے ایک شخص میرے پاس آیا اس پر خواہش نفسانی کا غلبہ تھا۔ مگر غریب نادار تھا اتنی قدرت نہ تھی کہ وہ نکاح کر سکے اس نے مجھ سے اپنی حالت بیان کی اور علاج کا طالب ہوا ابھی میں اس کا جواب بھی نہ دینے پایا تھا کہ میرے بولنے سے قبل اس کی گفتگو سنتے ہی آپ (غیر مقلد صاحب) بولے کہ روزے رکھا کرو کیونکہ حدیث میں آیا ((ومن لم یستطع فعلیہ بالصوم)) ’’جو شخص نکاح کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو اس کو روزے رکھنے چاہئیں۔‘‘ اس شخص نے جواب دیا کہ میں نے روزے بھی رکھے تھے مگر اس سے بھی میری خواہش کم نہیں ہوئی اس کا یہ جواب سن کر ان (غیر مقلد) صاحب کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ میں نے ان صاحب کو سنا کر اس شخص سے دریافت کیا کہ تم نے کتنے روزے رکھے تھے۔ اس نے کہا کہ دو روزے رکھے تھے میں نے کہا یہی وجہ ہے کہ تم کو کامیابی نہیں ہوئی۔ کیونکہ تم کو کثرت سے روزے رکھنے چاہئیں تھے۔ اور یہ شرط خود اس حدیث پاک سے ثابت ہوئی ہے اور وہ اس طرح کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے۔ ((فعلیہ بالصوم)) لفظ علی لزوم کے لیے آتا ہے اور لزوم کی دو قسمیں ہیں ایک لزوم اعتقادی دوسرے عملی مگر دلائل سے یہاں لزوم اعتقادی تو مراد ہو نہیں سکتا۔ کیونکہ یہ صوم (روزہ رکھنا) فرض نہیں محض علاج ہے بس لزوم عملی مراد ہو گا اور لزوم عملی ہوتا ہے تکرار و کثرت سے۔ چنانچہ جب کوئی شخص کسی کام کو بار بار اور کثرت سے کرتا ہو تو سمجھا جاتا ہے کہ یہ کام اس نے اپنے اوپر عملی طور پر لازم کر لیا ہے۔ پس مراد حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ ہے کہ کثرت سے روزے رکھو۔ اور مشاہدہ ہے کہ قوت بہیمیہ (شہوانی قوت) کے انکسار (توڑنے) کے لئے جو کہ علاج کا حاصل ہے‘ تھوڑے روزے کافی نہیں بلکہ کثرت صوم پر یہ اثر مرتب ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شروع رمضان میں ضعف نہیں ہوتا اور آخر رمضان میں ضعف ہو جاتا ہے۔ اور یہ تجربہ ہے کہ شروع رمضان میں قوت بہیمیہ شکستہ نہیں ہوتی بلکہ رطوبات فضلیہ کے سوخت ہو جانے کی وجہ سے اس قوت میں اور انتعاش (جوش) ہوتا ہے پھر رفتہ رفتہ ضعف بڑھ جاتا ہے یہاں تک کہ آخر میں پورا ضعف ہو جاتا ہے۔ جس سے قوت بہیمیہ شکستہ ہو جاتی ہے کیونکہ اس وقت روزہ کی کثرت متحقق ہو جاتی ہے۔ وہ سائل تو چلا گیا مگر مجتہد صاحب پھر کچھ نہیں بولے میرے پاس ان کا خط آیا تھا کہ میں تمہارا امتحان لینے کے لئے آتا ہوں ان ہی غریب کا امتحان ہو گیا۔ (الافاضات الیومیہ صفحہ ۱۶۵ جلد ۹‘ صفحہ ۲۲۱ جلد ۱۰)