اسلامی شادی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اگر دوسرے اجارات (مثلاً) بچوں کی تعلیم‘ صنعتوں‘ اور حرفتوں کی طرح اس کی بھی حالت رکھی جائے کہ جس کا دل چاہے جس کو چاہے بلائے اور کسی کی خصوصیت نہ سمجھی جائی اور جس اجرت پر چاہیں جانبین رضا مند ہو جائیں نہ کوئی قاضی اپنے کو مستحق اصل قرار دے نہ دوسروں کے ذہن میں اس کو پیدا کیا جائے (کہ یہ صرف قاضی صاحب ہی کا حق ہے) اور اگر اتفاق سے کوئی دوسرا یہ کام کرنے لگے تو اس سے رنج و آزردگی نہ ہو شہر میں جتنے چاہیں اس کام کو کریں ان سب کو آزاد سمجھا جائے (ہاں جو اس کام کا اہل نہ ہو اس کو خود ہی جائز نہ ہو گا اس کو ایک عارض کی وجہ سے روکا جائے گا) اسی طرح اس نکاح کے ساتھ معاملہ کیا جائے اور بلانے والے اپنے پاس سے اجرت دیں دولہا والوں کی تخصیص نہ ہو اس طرح البتہ جائز اور درست ہے غرض دوسرے اجرت کے کاموں میں اور اس میں کوئی فرق نہ کیا جائے (تو جائز ہے) (امداد الفتاویٰ صفحہ ۳۷۴ جلد ۳) اجرت نکاح کی ناجائز صورتیں (نکاح کی اجرت) دینے والا اگر دولہا اور قاضی کو بلا کر لے گیا ہو دلہن والا جیسا کہ دستور اکثر یہی ہے تب تو یہ لینا بالکل جائز نہیں کیونکہ اجرت بلانے والے کے ذمہ واجب تھی دوسرے پر بار ڈالنا جائز نہیں۔ (امداد الفتاویٰ صفحہ ۲۷۸ جلد ۲) ! ایک رواج یہ ہے کہ اکثر جگہ قاضی لوگ اپنا نائب بھیج دیتے ہیں اور ان کو جو کچھ ملتا ہے اس میں زیادہ حصہ قاضی اور تھوڑا سا اس نائب کا ہوتا ہے یہ قاضی صاحب کا استحقاق محض بلا دلیل ہے اور اس پر کد (کوشش) و مطالبہ کرنا بالکل ناجائز ہے۔ یہ امر یاد رکھنے کے قابل ہے البتہ خوشی سے اگر صاحب تقریب (شادی والا) کچھ دیدے تو لینا جائز ہے اور جس کو دیا ہے اس کی ملک ہے مثلاً اگر نائب کو خوشی سے دیا تو تمام تر اس کی ملک ہے منیب صاحب (محض) اس وجہ سے لیتے ہیں کہ ہم نے تم کو مقرر کیا ہے سو اس وجہ سے لینا رشوت اور حرام ہے اور راشی و مرتشی یعنی نائب اور منیب دونوں عاصی (گنہگار) ہوتے ہیں۔ (اصلاح الرسوم صفحہ ۶۸) " اور اگر کسی اور نے پڑھا ہو تب قاضی صاحب یا نائب قاضی صاحب کو لینا بالکل جائز نہیں اور قاضی صاحب سے نکاح پڑھوانا واجب نہیں۔ (امداد الفتاویٰ صفحہ ۲۷۸ جلد ۲) # فرمایا جب نکاح خواں کو لڑکی والے بلائیں تو اس حالت میں لڑکے والوں سے نکاح خوانی (کی اجرت) دلوانا اور لینا حرام ہے۔ (حسن العزیز) $ اور اگر (نکاح خواں کو) بلانے ولا ابھی دولہا والا (لڑکے والا) ہے خواہ اپنے آدمی کے ہاتھ بلایا ہو یا دلہن والے سے کہہ کر بلایا ہو تو نکاح خواں کو اس کا دیا ہوا لینا جائز ہے۔ (امداد الفتاویٰ صفحہ ۲۷۸ جلد ۲) % نکاح خوانی کی اجرت جو لڑکے والوں سے (ہر حال میں) دلواتے ہیں (گو نکاح خواں کو بلانے والے لڑکی والے ہوں) یہ بھی رشوت میں شامل ہے۔ نکاح پڑھانے کی اجرت تو فی نفسہٖ جائز ہے لیکن کلام اس میں ہے کہ کون دے۔ تو شرعی اعتبار سے اس کی اجرت اس شخص کے ذمہ ہے جس نے نکاح خواں سے عقد اجارہ کیا ہے اور اس کو