اسلامی شادی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
دوسرے یہ کہ ملنا جلنا کم ہوجاتا ہے کیونکہ جب تک پاس نہ ہو ملنے کیا جائیں (اسی موقع پر) دینا ضروری سمجھتے ہیں اس لئے اس کو موقوف کرنا چاہئے۔ (ملفوظات اشرفیہ صفحہ ۲۰۸ حسن العزیز صفحہ ۳۱۸ جلد ۱) لین دین کا صحیح اور مناسب طریقہ اور اگر کسی عزیز کے ساتھ حسن سلوک کرنا ہو‘ کچھ دینا ہو تو اگر رسم کی صورت سے نہ ہو تو مضائقہ نہیں اور تقریبات (شادی) کے موقع پر نہ دے‘ وقت ٹال کر دے‘ جب کہ توقع بھی نہ رہے۔ بلا توقع کے اگر دو روپیہ بھی ملتے ہیں تو بہت خوشی ہوتی ہے۔ اورمحبت بڑھتی ہے صمیم قلب (دل کی گہرائی) سے مسرت ہوتی ہے۔ طبیعت اندر سے کھل جاتی ہے اور اگر رسم کے طور پر دیا تو صرف انتظار کی تکلیف ختم ہو گئی گویا عذاب سے نجات ہوئی دوزخ سے تو نجات ہوئی لیکن جنت نہیں ملی (یعنی بدنامی اور ملامت کا ڈر نہ رہا لیکن خوشی نہ ہوئی) (ملفوظات اشرفیہ صفحہ ۲۰۹‘ ۲۱۰) (اور اب نیوتہ کی رسم کو بالکل بند کر دیا جائے اور جس کے ذمہ اب تک بقایا ہے اپنی حیات میں کسی تقریب کے انتظار کے وقت ادا کر دیا جائے) (جامع التبلیغ صفحہ ۹۱ جلد ۱۵) شادی کے موقع پر شادی خرچ دینے کا حکم شادی وغیرہ کے موقع پر جو دولہا کی طرف سے (یا دلہن والوں کی طرف سے) خرچ دیا جاتا ہے اس کے متعلق ایک بڑے عالم نے اعتراض کیا کہ اگر طیب خاطر (دلی رضامندی) سے دیا جائے تو جائز ہے اس میں کیا خرابی ہے جو لوگوں کو عام طور پر منع کیا جاتا ہے؟ جواب میں ارشاد فرمایا کہ اسی میں تو کلام ہے کہ طیب خاطر ہوتا ہے یا نہیں بدنامی کے خیال سے دبائو میں آ کر دیتے ہیں اند رسے جی پر بار ہوتا ہے پھر طیب خاطر کہاں رہا۔ (دعوات عبدیت صفحہ ۱۲۹ جلد ۱۹) رخصتی کے موقع پر رسمی طور سے شادی خرچ دینے کا حکم ایک کوتاہی بعض علاقوں میں یہ ہے کہ شوہر (لڑکے والوں سے یا لڑکی والوں سے جیسا بھی عرف ہو) نکاح یا رخصتی سے قبل کچھ روپیہ اس غرض سے لے لیتے ہیں کہ شادی کے مصارف (اخراجات) میں خرچ کریں گے یہ رشوت اور حرام ہے۔ (اصلاح انقلاب‘ صفحہ ۱۳۸ جلد ۲) رسم و رواج کے مطابق دیئے ہوئے سامان کا شرعی حکم‘ شرما حضوری یا دبائو و بدنامی کے خوف سے دیا ہوا مال حلال نہیں بیہقی و دارقطنی کی حدیث ہے۔ ((قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ و سلم الا لا تظلموا الا یحل مال امری الا بطیب نفس منہ)) ’’حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا‘ خبردار ہو جائو ظلم نہ کرو ! خبردار کسی انسان کا مال اس کی دلی مرضی کے بغیر حلال نہیں‘‘ بعض لوگوں کو اس میں یہ غلطی ہوتی ہے کہ کہتے ہیں کہ ہماری کیا وجاہت اور دبائو ہے جو شخص دے گا خوشی سے دے گا‘ حالانکہ مشاہدہ اس کی تکذیب کرتا ہے۔ اس کا حال دینے والے سے معلوم ہو سکتا ہے۔ کوئی تیسرا آدمی جو اس سے بے تکلف ہو اس سے قسم دے کر پوچھے کہ تو نے خوشی سے دیا ہے یا ناخوشی سے۔ بہت آسانی سے اس کا فیصلہ ہو جائے گا اور اسی سے حکم معلوم ہو جائے گا ان رقوم (نقد رقم یا دیئے ہوئے