اسلامی شادی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہندوستانی عورتوں کی وفاداری واقعی ہندوستان کی عورتیں تمام ممالک کی عورتوں سے ممتاز ہیں یہ (عورتیں) تو نکاح کر کے شوہر کے ساتھ ایسی وابستہ ہو جاتی ہیں کہ اپنے باپ ماں کو اکثر دفعہ چھوڑ دیتی ہیں۔ چنانچہ اگر اس کے باپ یا ماں یا اور کسی عزیز (رشتہ دار) کے ساتھ کبھی شوہر کی ان بن ہو جائے تو عورت عموماً شوہر کا ساتھ دیتی ہے۔ ماں باپ کا ساتھ نہیں دیتی۔ یہ بے چاری ہندوستان کی عورتیں ہیں جو مہر بھی معاف کر دیتی ہیں اور عمر بھر نان و نفقہ کی تکلیف بھی سہتی ہیں۔ خیر کسی کے پاس ہو ہی نہیں تو اس کی شکایت نہیں اس صورت میں تو عورتیں خود محنت مزدوری کر کے شوہر کو کھلاتی ہیں۔ اگر خاوند بے توجہی سے یا اور کسی وجہ سے لڑ بھڑ کر یا ناداری کی وجہ سے یا قید ہو کر گھر سے چلا جائے۔ اور پچاس سال تک باہر رہے اپنی خبر بھی نہ دے کہ مر گیا ہوں یا زندہ ہوں اور بیوی کی کوئی معاش بھی نہ ہو۔ اس پر بھی جس وقت آئے گا بیوی کو اس کونے میں بیٹھا دیکھ لے گا جس میں چھوڑ گیا تھا۔ آنکھوں سے دیکھ لے گا کہ نامراد مر رہی ہے سڑ رہی ہے۔ مُردوں سے بد تر حالت ہے مگر یہ نہیں ہوا ہو گا کہ امانت میں خیانت کی ہو یا کسی اور پر نگاہ ڈالی ہو یہ صفت ایسی ہے کہ اس کے واسطے سب ناز گوارا کئے جا سکتے ہیں۔ اس صفت کے سامنے کسی عیب پر بھی نظر نہیں پڑنا چاہئے۔ (التبلیغ کساء النساء صفحہ ۵۹ جلد ۷) کانپور میں دیکھا گیا ہے کہ بعض عورتوں نے خاوند کے ظلم اور مار پٹائی سے تنگ آ کر قاضی جی کے یہاں جا کر طلاق لینے کی درخواست کی۔ قاضی جی نے کوشش کر کے طلاق دلوادی۔ ساری عمر کی مصیبتوں اور پٹائی کی وجہ سے طلاق لے تو لی۔ مگر طلاق کے وقت زار و قطار روتی تھیں۔ اور یہ حالت تھی کہ مر جائیں گی‘ یا زمین پھٹ جائے‘ تو اس میں سما جائیں گی۔ عورتوں کی یہ بات بہت قابل قدر ہے کہ ان کو خاوند سے عشق ہوتا ہے۔ ہماری عورتوں میں محبت کا مادہ اس قدر ہے کہ سچ مچ عشق کا مرتبہ ہے پھر کیا اس کی یہی قدر ہے کہ ان کو تکلیف دی جائے یا ذرا ذرا سی ناگواری پر ان کو الگ کر دیا جائے۔ (ایضاً صفحہ ۱۲۷ جلد۷) بیوہ عورت کے بیان میں بیوہ عورت کا نکاح جہالت کی کثرت کے سبب سے اکثر لوگ بیوہ کے نکاح ثانی کو معیوب سمجھتے ہیں بعض جگہ تو یہاں تک غضب سنا ہے کہ منگنی ہونے کے بعد اگر لڑکا مر گیا تو پھر لڑکی کو تمام عمر بٹھائے رکھا۔ اور یہ تو بکثرت ہے کہ شادی کے بعد بچپن یا جوانی میں بیوہ ہو گئی بس اب اس کی شادی کرنا گویا بڑا گناہ سمجھا جاتا ہے۔ بعض لوگ اگرچہ علم دین اور وعظ کے چرچوں کے سبب سے اب اس درجہ کا عیب نہیں سمجھتے مگر تا ہم جس طرح اس لڑکی کی پہلی شادی کی فکر تھی دوسری شادی کی فکر