اسلامی شادی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
خدمت اپنے خادم کودیا جاتا ہے یا دنیا بھر کے خادموں کو‘ میرے نائی نے میری خدمت کی اس کو اگر ہم کچھ دیں تو اس کا حق ہو سکتا ہے دوسرے کے خدمت گزار کا ہم پر کیا حق ہے؟ اس تقریر سے مولوی صاحب کی آنکھیں کھل گئیں۔ صبح ہوئی تو فرد خرچ کے متعلق گفتگو ہوئی اہل رسوم میں ایک فرد ہوتی ہے کمینوں کی جس میں ان کا نیگ لکھا ہوا ہوتا ہے مگر کسی کی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ ہمارے سامنے پیش کرے‘ میرے ایک دوست تھے ان کے ذریعہ سے پیش ہوئی انہوں نے کہا اس میں کیا رائے ہے میں نے کہا وہی رات کی رائے۔اور میں نے یہ بھی کہا کہ لوگوں کو شرم نہیں آتی فرد پیش کرتے ہوئے کہ نائی سے کام تو خود اپنا کرایا‘ سقے سے پانی بھرایا اور اجرت دیں ہم ؟اپنے مہمان سے اجرت دلانا کس قدر بے غیرتی کی بات ہے‘ مگر ان رسموں کی پابندی میں عقل تو رخصت ہوئی تھی غیرت بھی جاتی رہی۔ اب رخصتی کا وقت آیا لڑکی والوں نے تقاضا کیا کہ پالکی یا میانہ لائو ہم بغیر پالکی یا ڈولا کے رخصتی نہ کریں گے‘ میں نے کہا ہم (اس طرح) رخصتی ہی نہیں چاہتے‘ ساتھیوں نے کہا کیا رائے ہے ؟ میں نے کہا رائے یہی ہے کیونکہ نکاح تو ہو ہی چکا ہے ہم اپنے گھر جاتے ہیں تم خود دلہن کو ہمارے پیچھے پیچھے لائو گے اب سیدھے ہو گئے۔ پھر کہنے لگے جہیز کے لئے چھکڑا لائو میں نے کہا ہم جہیز نہیں لے جاتے آخر چھکڑا بھی خود لائے۔ عورتیں کوستی رہیں مگر ہم مظلوم تھے ظالم کے کوسنے سے مظلوم کا نقصان نہیں ہوتا‘ غرض ایسی برکت کا نکاح ہوا کہ دونوں طرف کا نکاح ہوا ایک پیسہ خرچ نہ ہوا (کیونکہ برکت والا نکاح وہی ہوتا ہے کہ جس میں کم سے کم خرچ ہو جیسا کہ حدیث میں بھی آیا ہے) اسی دولہا کے ایک دوسرے بھائی کا نکاح رسم کے ساتھ ہوا تو وہ قرض دار ہو گیا۔ میں نے کہا ایک نکاح ہوا تو اس میں قرض ہوا اگر دوسرا ہوا تو ختم ہی ہو جائے گا‘ اس قرضدار کی دلہن کوستی تھی ماں باپ کو بھی‘ ساس سسر کو بھی کہ ان کا کیا نقصان ہوا روٹی کی کمی تو ہم پر ہو گئی۔ (یعنی تنگی ہو گئی) (الاتمام لنعمۃ الاسلام ملحقہ محاسن اسلام صفحہ ۲۲۸) اگر میری لڑکیاں ہوتیں تو میں کس طرح شادی کرتا اگر ایسا اتفاق مجھ کو پڑا ہوتا تو اس وقت خیال یہ ہے کہ میں یوں کرتا کہ اس کام کے لئے وطن آنے کی ضرورت نہ سمجھتا اور سفر کے مصارف میں اتنا روپیہ ضائع نہ کرتا لڑکے والوں کو لکھ دیتا کہ لڑکا اور ایک اس کا مخدوم سرپرست اور دو اس کے خادم کل چار آدمی یہاں آ جائیں اور اسی مکان میں یا کوئی اور اچھا وسیع مکان کرایہ پر لے کر ان کا قیام کراتا اور لڑکیوں کو اپنے گھر کا جوڑا پہناتا اور لڑکوں (دامادوں) کو مجبور کرتا کہ اپنا رزا پہن کر آئواور نکاح کی مجلس میں کسی کو اہتمام کر کے نہ بلاتا‘ محلہ کی مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے سب کو لے جاتا اور نماز کے بعد کہہ دیا جاتا کہ سب صاحب ذرا ٹھہر جائیں وہی مجمع اعلان و شہادت کے لئے کافی ہوتا اور خود یا کسی عالم کی وساطت (ذریعہ) سے نکاح پڑھ دیتا‘ اور روپیہ دو روپیہ کے خرما (چھوارے) تقسیم کر دیتا۔ اس میں مسجد میں نکاح پڑھنے کی بھی تعمیل ہو جاتی۔ وہاں سے مکان پر آکر اسی وقت یا جس وقت موقع ہوتا لڑکیوں کو بلا جہیز کے اس کرایہ کے مکان میں رخصت کر دیتا اور ایک معتبر خادمہ کو ان کے ہمراہ کر دیتا اور دوسرے