اسلامی شادی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہوں کیا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ یہ (مذکورہ بالا) حقوق تو واجب تھے بعض حقوق مروت کے ہوتے ہیں گو واجب نہیں ہوتے مگر ان کی رعایت نہ کرنے سے دل شکنی ہوتی ہے جو رفاقت کے حقوق کے خلاف ہے ان کی رعایت اور بھی دقیق ہے۔ غرض کوئی شخص واقعات و معاملات کے احکام علماء سے پوچھے اور پھر عمل کرے تو نانی یاد آجائے گی اور تعدد ازواج سے توبہ کر لے گا۔ (اصلاح انقلاب صفحہ ۸۴) بغیر سخت مجبوری کے دوسری شادی کرنے کا انجام موجودہ حالات میں بغیر سخت مجبوری کے دوسرا نکاح ہر گز نہ کرنا چاہئے‘ اور مجبوری کا فیصلہ نفس سے نہ کرانا چاہئے بلکہ عقل سے کرانا چاہئے‘ بلکہ عقلاء کے مشورہ سے کرانا چاہئے‘ اور پختگی سن (عمر ڈھل جانے) کے بعد دوسرا نکاح کرنا پہلی منکوحہ کو بے فکر ہو جانے کے بعد اس کو فکر میں ڈالنا ہے اور جہالت تو اس کا لازمی حال ہے۔ وہ اپنا رنگ لائے گا اور اس رنگ کے چھینٹے سے نہ ناکح (نکاح کرنے والا مرد) بچے گا نہ منکوحہ ثانیہ (دوسری بیوی) بچے گی۔ خواہ مخواہ غم کے دریا بلکہ خون کے دریا میں سب غوطے لگائیں گے۔ خصوصاً جب کہ مرد عالم دین اور متحمل بھی نہ ہو۔ علم نہ ہونے سے تو وہ عدل کے حدود کو نہ سمجھے گا اور تحمل (برداشت کا مادہ) نہ ہونے سے ان حدود کی حفاظت نہ کر سکے گا اس وجہ سے وہ ضرور ظلم میں مبتلا ہو گا۔ چنانچہ عموماً کئی بیویوں والے لوگ ظلم و ستم کے معاصی (گناہ) میں مبتلا ہوتے ہیں۔ (اصلاح انقلاب صفحہ ۸۳ جلد ۲) دو شادیاں کرنا پل صراط پر قدم رکھنا اور اپنے کو خطرہ میں ڈالنا ہے (مجھے) دوسری بیوی کرنے میں بہت ساری مصلحتیں ظاہر ہوئیں مگر یہ مصلحتیں ایسی ہیں جیسے جنت کے راستہ میں پل صراط کہ بال سے زیادہ باریک تلوار سے زیادہ تیز جس کو طے کرنا سہل کام نہیں اور جو طے نہ کر سکا وہ سیدھا جہنم میں پہنچا اس لئے ایسے پل پر خود چڑھنے کا ارادہ ہی نہ کرے۔ ان خطرات اور ہلاکت کے موقعوں کو پار کرنے کے لئے جن اسباب کی ضرورت ہے وہ ارزاں (سستے) نہیں ہیں۔ دین کامل‘ عقل کامل‘ نور باطن‘ ریاضت سے نفس کی اصلاح کر چکنا‘ (یہ سب اس کے لئے ضروری ہیں)۔ چونکہ ان سب کا جمع ہونا شاذ ہے اس لئے تعدد ازواج (کئی بیویوں کے چکر میں پڑنا) اپنی دنیا کو تلخ اور برباد کرنا ہے یا آخرت اور دین کو تباہ کرنا ہے۔ (اصلاح انقلاب صفحہ ۹۰) حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی وصیت اور ایک تجربہ کار کا مشورہ کسی کو یہ وہم نہ ہو کہ خود کیوں اس مشورہ کے خلاف کیا (حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی دو بیویاں تھیں) بات یہ ہے کہ خلاف کرنے ہی سے یہ مشورہ سمجھ میں آیا ہے اس فعل سے مجھے تجربہ ہو گیا اور تجربہ کار کا قول زیادہ ماننے کے قابل ہے۔ میں اپنے تجربہ کی مدد سے اپنے بھائیوں اور احباب کو اس تعدد سے (کئی بیوی کرنے سے) مشورۃً منع کرتا ہوں اگر میں اس تعدد کو اختیار نہ کرتا تو میرے اس منع کرنے کی زیادہ وقعت آپ لوگ نہ کرتے۔ لیکن اب اس ممانعت کی خاص وقعت (ہوگی لہٰذا) اس ممانعت پر عمل کرنا چاہئے مگر