اسلامی شادی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اور طعن و تشنیع کی جاتی ہے ایسے گانے اور ایسے حق کو کیوں حرام نہ کہا جائے گا۔ (اصلاح الرسوم صفحہ ۷۳) گانے باجے کی فرمائش بعض لوگ جو شادی کے موقع پر اس کا سامان (اور انتظام) کرتے ہیں یا دوسری طرف والوں پر تقاضا کرتے ہیں یہ لوگ کس قدر گنہگار ہوتے ہیں۔ بلکہ محفل کرنے والا جتنے آدمیوں کو گناہ کی طرف بلاتا ہے جس قدر علیحدہ علیحدہ سب کو گناہ ہوتا ہے وہ سب ملا کر اس اکیلے کو اتنا ہی گناہ ہو گا مثلاً فرض کرو کہ مجلس میں سو آدمی آئے تو جتنا گناہ ہر آدمی کو ہوا وہ اس اکیلے شخص کو ہوا یعنی مجلس کرنے والے کو پورے سو آدمیوں کا گناہ ہوا بلکہ اس کی دیکھا دیکھی جو کوئی جب کبھی ایسا جلسہ کرے گا (یعنی ناچ گانا کرائے گا) اس کا گناہ بھی اس کو ہو گا بلکہ اس کے مرنے کے بعد بھی جب تک اس کا بنیاد ڈالا ہوا سلسلہ چلے گا اس وقت تک برابر اس کے نامہ اعمال میں گناہ بڑھتا رہے گا۔ پھر اس مجلس میں باجا بھی بے دھڑک بجایا جاتا ہے یہ بھی گناہ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ مجھ کو میرے پروردگار نے ان باجوں کو مٹانے کا حکم دیا ہے۔ خیال کرنے کی بات ہے کہ جس کو مٹانے کے لئے حضور صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے اس کے رونق دینے والے گناہ کا کیا ٹھکانہ ہو گا۔ (بہشتی زیور صفحہ ۳۲۴ جلد ۶) شادیوں میں بینڈ باجے بجانے کی رسم کس قدر افسوس اور حسرت کا مقام ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم تو فرمائیں کہ خدانے مجھے ہدایت کے واسطے رسول بنایا اور حکم دیا کہ تمام دنیا سے راگ باجا مٹا دوں۔ (رواہ ابودائود) اور یہ بھی فرمایا کہ میری امت میں سے ایک قوم کے لوگ آخر زمانہ میں مسخ ہو کر سور بندر ہو جائیں گے صحابہ نے پوچھا کہ یہ لوگ مسلمان ہو ں گے یا کون۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہاں یہ سب مسلمان ہوں گے۔ خدا کی وحدانیت اور میری رسالت کے شاہد ہوں گے اور روزہ بھی رکھتے ہوں گے مگرآلات لہو یعنی باجا وغیرہ بجائیں گے اور گانا سنیں گے اور شراب پئیں گے تو مسخ کر دیئے جائیں گے۔ (امداد الفتاویٰ صفحہ ۲۹۱ جلد ۲) اگر لڑکی یا لڑکے والے ماننے کو تیار نہ ہوں بعض لوگ کہتے ہیں کہ لڑکی والا نہیں مانتا بہت مجبور کرتا ہے‘ ان سے پوچھنا چاہئے کہ لڑکی والا اگر یہ زور ڈالے کہ (ساڑھی پہن کر) تم خود ناچو تو کیا لڑکی لینے کے واسطے تم خود ناچو گے۔ یا غصہ میں درہم برہم ہو کر مرنے مارنے کو تیار ہو جائو گے اور لڑکی نہ ملنے کی کچھ پرواہ نہ کروگے۔ پس مسلمان کا فرض ہے کہ شریعت نے جس کو حرام کیا ہے اس سے اتنی ہی نفرت ہونی چاہئے جتنی اپنی طبیعت کے خلاف کاموں سے ہوتی ہے تو جیسے اس میں شادی ہونے کی کچھ پرواہ نہیں ہوتی اس طرح خلاف شرع کاموں میں صاف جواب دینا چاہئے کہ چاہے شادی کرو چاہے نہ کرو ہم ہر گز ناچ نہ ہونے دیں گے‘ اسی طرح ایسی شادی میں شریک بھی نہ ہونا چاہئے نہ دیکھنا چاہئے۔ (بہشتی زیور صفحہ ۳۲۵ جلد ۶)