اسلامی شادی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کوئی اہتمام نہیں کرتا۔ (منازعۃ الہویٰ صفحہ ۴۶۷) (مثال کے طور پر) ایک شخص مرا اس نے دو بیٹے چھوڑے اور اس نے مثلاً پانچ روپے نیوتہ میں دیئے تھے تو وہ پانچ روپے بھی مردہ کی میراث ہیں جب جب وصول ہوں گے تو ان کا ورثاء پر تقسیم کرنا واجب ہو گا۔ اب وہ وصول کس طرح سے ہوں گے جب ان کے یہاں کوئی شادی ہو گی تو وہ بطور نیوتہ کے دیئے جائیں گے‘ اب ایک بیٹے کی شادی ہوئی اور وہ پانچ روپے آئے تو وہ پانچ روپے اس کے نہیں بلکہ یہ صرف ڈھائی روپے کا مستحق ہے اور باقی ڈھائی روپے دوسرے بھائی کا حصہ ہے۔ لہٰذا وہ اس کو دینے لازم ہیں مگر وہ اس کو نہیں دیئے جاتے اس لئے دینے والے کے ذمہ سے پانچوں روپے نہیں ادا ہوئے بلکہ صرف ڈھائی روپے ادا ہوئے اور دوسرے کے ڈھائی روپے رہ گئے۔ پھر وہ مر گیا تو اب ڈھائی روپے کی میراث چلے گی اسی طرح آگے اولاد ہو گی اور یہی سلسلہ چلے گا تو اس ڈھائی روپیہ کے ہزاروں آدمی مستحق بن گئے۔ قیامت میں اس شخص کی جان پر بنے گی۔ اس لئے ایک ایک پیسہ اور کوڑی کا دعویٰ ہو گا آخر اس کا علاج کیا سوچا ہے۔ یہ مفاسد ہیں اس خبیث نیوتہ میں‘ مگر چونکہ لوگوںکو شریعت کا علم نہیں ہے اس لئے ان خرابیوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ (التبلیغ صفحہ ۱۳ جلد ۱۵) درحقیقت یہ میراث کے احکام کو بدلنا ہے جس کی نسبت قرآن شریف میں ارشاد ہے {فَرْیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِ} یعنی میراث کی تقسیم خدا تعالیٰ کی مقرر کردہ ہے۔ اور آگے ارشاد ہے کہ جو کوئی اللہ و رسول کے حکم کو مانے گا اللہ اس کو جنت میں داخل کریں گے۔ اور جو نہ مانے گا اس کو دوزخ میں ڈالیں گے اس آیت میں احکام میراث میں تشدد پیدا ہوتا ہے اب دیکھئے نیوتہ میں کیا ہوتا ہے۔ بہت جگہ اگر نیوتہ دینے والا اگر نیوتہ چھوڑ کر مر جاتا ہے تو وہ نیوتہ بڑے بیٹے کی شادی کے وقت ادا کیا جاتا ہے اور وہ اس کو اپنی شادی کے خرچ میں لاتا ہے حالانکہ یہ سب وارثوں کا مال ہے جو ایک کے خرچ میں آ رہا ہے اس سے کھانا کھایا جاتا ہے اور سب برادری کھاتی ہے اور اس میں دوسرے وارثوں کی حق تلفی ہوئی اور ان کی بلا اجازت کھانے والوں نے کھایا یہ حق العبد ہوا اور اگر ان وارثوں میں کچھ نا بالغ بچے بھی ہیں تو ان کا حصہ بھی کھایا اس میں حق العبد ہونے کے ساتھ اتنا اور اضافہ ہے کہ یتیموں کا مال ظلماً کھایا جس کی نسبت قرآن شریف میں ہے۔ {اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتَامٰی ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنْــھْمْ نَارًا وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا} ’’یعنی جو لوگ یتیموں کا مال بلا کسی حق کے کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ آگ سے بھرتے ہیں اور عنقریب دوزخ میں جائیں گے۔‘‘ کیا کوئی مسلمان ان وعیدوں کو سننے کے بعد اس کے جاری رکھنے کی جرأت کرے گا دینا تو درکنار یہ ایسی وعیدیں ہیں کہ ان کے خوف سے اپنا آتا ہوا بھی وصول کرنا بھول جائے۔ یہ ہیں آپ کے نیوتہ کے مختصر نتائج جن میں ساری برادری والے گرفتار ہیں۔ (منازعۃ الہویٰ صفحہ ۴۶۹) رسمی لین دین نہ کرنے سے تعلقات کی خراب کا شبہ ایک صاحب نے رسمی لینے دینے کی بابت عرض کیا کہ اگر یہ بند کر دیا جائے تو مغایرت (دوری) پیدا ہو جائے (اور تعلقات خراب ہو جائیں) فرمایا کہ جو رسمی لین دین ہوتا ہے اس کے آثار و نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ محبت نہیں بڑھاتا بلکہ محبت کم کرتا ہے جو لوگ دیتے ہیں اکثر دبائو (اور شرما حضوری میں رواج) کی وجہ سے دیتے ہیں۔