اسلامی شادی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بارات وغیرہ کی تمام رسموں کے ناجائز ہونے کی شرعی دلیل میرے نزدیک جو مجموعی ہیئت اس وقت تقریبات کی ہو رہی ہے اس کے ہر جزء کی قریب قریب اصلاح ضروری ہے‘ تمام رسوم میں بجز اتلاف مال (مال کے برباد کرنے) وارتکاب معاصی کے مثلاً ریا‘ تفاخر‘ اسراف اور دوسروں کے لئے موجب تکلیف ہوجانا‘ اور مقتدائے معاصی بن جانا (ان رسموں میں) کوئی دنیا کا بھی معتدبہ (لائق اعتبار) نفع نہیں۔ اس لئے میرے نزدیک ان کی قباحت بڑھی ہوئی ہے میرے خیالات کا خلاصہ مختصر الفاظ میں یہ ہے کہ ہیئت متعارفہ (مروجہ طریقہ) کے اجزاء بدلنے کی ضرورت ہے گو اکثر اجزاء اگر فرداً فرداً دیکھے جائیں تو مباح نکلیں گے۔ مگریہ قاعدہ شرعی بھی ہے اور عقلی بھی کہ جو مباح معصیت کا ذریعہ اور معین جرم بن جائے وہ بھی معصیت اور جرم ہوجاتا ہے۔ ان تقریبا ت کی بدولت کیا مسلمان مقروض نہیں بن جاتے۔ کیا مہاجنوں کو سود نہیں دیتے۔ کیا ان کی جائداد اور مکان نیلام نہیں ہو جاتے۔ کیا اہل تقریب کے ذہن میں اظہار و تفاخر و نمائش نہیں ہوتا اگر عام مجمع میں اظہار نہ ہو تو کیا خاص مجمع کے خیال سے ( کہ گھر پہنچ کر زیور و اسباب دیکھا جائے گا اس کی قیمت کا اندازہ کیا جائے گا) سامان نہیں کیا جاتا پھر ان رسوم میں تسلسل و ترتب کچھ اس قسم کا ہے کہ ایک کو کر کے سب ہی کو آہستہ آہستہ کرنا پڑتا ہے۔ کیا ان قیود و پابندیوں کو قیود شرعیہ سے عملاً زیادہ ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ نماز با جماعت فوت ہونے سے کیا کبھی ایسی شرمندگی ہوئی ہے جیسی جہیز میں چوکی پلنگ کے نہ دینے سے ہوتی ہے۔گواس کی ضرورت نہ ہو جہیز میں ضروری سامان کا لحاظ (کرنے میں) شرعاً و عقلاً مضائقہ نہ تھا مگر بہت یقینی امر ہے کہ ضروریات کی فہرست ہر جگہ جدا بنے گی‘ لیکن جہیز کی ایک ہی فہرست ہر جگہ ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رواج کی پابندی اس کی علت ہے ضرورت پر اس کی بنیاد نہیں تو اس درجہ کی پابندی نہ عقلاً جائز نہ شرعاً درست۔ پس جب ان میں اس قدر مفاسد ہیں تو عقل یا نقل (شریعت) کب اس کی اجازت دے سکتی ہے۔ (امداد الفتاویٰ صفحہ ۲۷۹ جلد ۵) صاحب حیثیت مالدار کے لئے بھی بارات وغیرہ کی رسمیں درست نہیں بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ صاحب جس کو گنجائش ہو وہ کرے‘ جس کو نہ ہو وہ نہ کرے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو گنجائش والوں کو بھی گناہ کرنا جائز نہیں۔ جب ان رسوم کا معصیت ہوناثابت ہو گیا پھر گنجائش سے اجازت کب طلب ہو سکتی ہے۔ دوسرے یہ کہ جب گنجائش والے کریں گے تو ان کی برادری کے غریب آدمی بھی اپنی عزت و آبرو کی حفاظت کے لئے ضرور کریں گے۔ اس لئے ضروری امر اور مقتضاء یہی ہے کہ سب ہی ترک کر دیں۔ (اصلاح الرسوم صفحہ ۸۷) اگر یہ کہاجائے کہ کسی کو اگر گنجائش ہو تو دنیوی مذکورہ مضرتوں سے بھی محفوظ ہے اور نیت کی درستی اختیاری امر ہے ہم نہ امور کو ضروری سمجھتے ہیں نہ تفاخر اور نمائش کا ہم کو خیال ہے۔ پس ایسے شخص کے لئے تو یہ سب امور جائز ہو جانے چاہئیں۔ سو اول تو ذرا اس کا تسلیم کرنا مشکل ہے تجربہ اس کو تسلیم نہ کرنے دے گا‘ کیسا ہی گنجائش والا ہو کچھ نہ کچھ گرانی اس پر ضرور ہو گی اور نیت میں بھی فساد ضرور ہوتا ہے۔ لیکن اگر اس میں منازعت و مزاحمت نہ کی جائے تو سو میں ایک دو شخص ایسے