اسلامی شادی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ایسا نہ ہو کہ حیوانات کی طرح محض نطفہ نکالنا (خواہش پوری کرنا ہی) تمہارا مقصد ہو‘‘ $ اور فرمایا۔ {اِبْتَغُوْا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ} ’’یعنی بیوی کی قربت سے اولاد کا قصد کرو جس کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے مقدر فرمایا ہے‘‘ % نیز نکاح کرنے سے انسان پابند ہو جاتا ہے۔ مستعدی کے ساتھ کمانے کی فکر کرتا ہے۔ اور بیجا کام کرنے سے ڈرتا رہتا ہے اس میں محبت حیا فرماں برداری پائی جاتی ہے وہ نہایت کفایت کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے‘ اور بے شمار امراض سے بچا رہتا ہے۔ & یہ امر مفید صحت‘ اطمینان بخش‘ راحت رساں‘ سرور افزاء‘ کفایت آمیز‘ ترقی زندگی دارین کا سبب ہے۔ ' تمدن کے لئے اس سے بہتر کوئی صورت نہیں۔ حب الوطنی کی یہی جڑ ہے‘ اور ملک و قوم کے لئے اعلیٰ ترین خدمات میں سے ہے۔ بیماریوں سے بچانے‘ اور صدہا امراض سے محفوظ رکھنے کیلئے یہ ایک حکیمی نسخہ ہے۔ اگر یہ قانون الٰہی بنی آدم میں نافذ نہ ہو تا تو آج دنیا سنسان ہوتی نہ کوئی مکان نہ کوئی باغ نہ کسی قوم کا نشان باقی رہتا۔ (المصالح العقلیہ لاحکام النقلیہ صفحہ ۱۹۴) نکاح کی مصلحت نفس میں جو تقاضے پیدا ہوتے ہیں اگر ان کے پورا کرنے کے لئے ایک محل بھی تجویز نہ کیا جائے تو پھر انسان اپنے تقاضے کو ہر جگہ پورا کرے گا اور اس طرح اس کی بے حیائی کا عیب نمایاں ہو جائے گا اسی لئے شریعت نے نکاح تجویز کیا ہے جس میں نفس کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے ایک محل کی تعیین کی ہے اور اس تجویز میں شریعت کا عقل سے زیادہ خیر خواہ ہونا ثابت ہوتا ہے کیونکہ اگر عقل سے استفتاء کیا جائے تو عقل نکاح کو تجویز نہیں کر سکتی۔ کیونکہ ایک اجنبی مرد کے سامنے ایک اجنبی عورت کا اس طرح بے حجاب ہونا عقل کے نزدیک بالکل قبیح ہے‘ مگر عقل کی اس تجویز پر اگر عمل کیا جاتا تو زیادہ فتنہ برپا ہوتا‘ کہ ابھی تو ایک ہی اجنبی مرد و عورت بے حجاب ہو رہے تھے پھر نہ معلوم کتنے مرد اجنبی عورتوں کے ساتھ بے حجاب ہوتے اور کتنی عورتیں اجنبی مردوںکے سامنے بے حجاب ہوتیں کیونکہ آخر مرد و عورت ایک دوسرے سے کہاں تک صبر کرتے۔ ان عواقب پر نظر کر کے شریعت سماویہ نے نکاح کو تجویز کیا تاکہ اس تقاضا کے پورا ہونے کا محل محدود و متعین ہو کر فتنہ نہ بڑھے اور یہی علامت ہے اس مذہب کے سماوی (آسمانی) ہونے کی کہ اس کی نگاہ عواقب پر (انجام کو) محیط ہوتی ہے اور جو قوانین محض عقل سے بنائے جاتے ہیں ان کی نظر عواقب پر محیط نہیں ہوتی۔ (حقوق الزوجین صفحہ ۱۵۴ رفع الالتباس) چنانچہ عقل تو مطلقاً حیاء کو مطلوب سمجھتی ہے اور نکاح کو خلاف حیاء بتلاتی ہے مگر شارع نے نکاح کا قانون حیاء کی حفاظت کے لئے مقرر کیا ہے کیونکہ اگر ایک جگہ بھی حیاء ترک کیا جائے تو پھر پورا انسان بے حیا ہو جائے گا۔ (حقوق الزوجین صفحہ ۱۵۶) اسلامی حکم حدیث میں بیان کیا گیا ہے: