اسلامی شادی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
عورتیں اور رسوم کی پابندی عورتوں کی حالت بہت زیادہ خراب ہے۔ یہ اپنی ذہن کی ایسی پکی ہوتی ہیں کہ دین تو کیا دنیا کی بھی بربادی کا ان کو خیال نہیں رہتا۔ رسموں کے سامنے اور اپنی ضد کے سامنے چاہے کچھ بھی ہو جائے کچھ پرواہ نہیں کرتیں‘ بعض عورتیں ایسی دیکھی جاتی ہیں کہ ان کے پاس مال تھا مگر کسی تقریب یا شادی میں لگا کر کوڑی کوڑی کی محتاج ہو گئیں۔ اور ہر وقت مصیبت اٹھاتی ہیں مگر لطف (اور تعجب) یہ ہے کہ اب تک بھی ان رسموں کی برائی ان کو محسوس نہیں ہوئی یوں کہتی ہیں کہ ہم نے فلانے کے ساتھ بھلائی کی‘ اس کی شادی ایسی دھوم دھام سے کردی‘ ہماری یہ سب رقم خدا کے یہاں جمع ہے۔ جیسی جمع ہے آنکھ بند ہوتے ہی معلوم ہو جائے گا۔ جب دنیا کی تکلیفیں جو کہ ان کے سامنے ہیں ان پر اثر نہیں کرتیں حالانکہ وہ بالکل محسوس ہیں تو آخرت کی تکلیفوں کو وہ کب خیال میں لاتی ہیں جو ابھی مخفی ہیں۔ (منازعۃ الہویٰ صفحہ ۴۳۲) ایک مرض ان عورتوں میں ہے جو مفسدہ میں سب سے بڑھ کر ہے وہ یہ کہ عورتیں رسوم کی سخت پابند ہیں۔ خاوند کے مال کو بڑی بے دردی سے اڑاتی ہیں۔ خاص کر شادی بیاہ کی رسموں میں اور شیخی کے کاموں میں‘ بعض جگہ صرف عورتیں خرچ کی مالک ہوتی ہیں۔ پھر اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مرد رشوت لیتا ہے‘ یا مقروض ہوتا ہے۔ تو زیادہ تر جو مرد حرام آمدنی میں مشغول ہیں اس کا بڑا سبب عورتوں کی فضول خرچی ہے۔ مثلاً کسی گھر میں شادی ہوئی تو یہ فرمائش ہوتی ہے کہ قیمتی جوڑا ہونا چاہیے اب وہ سو دو سو روپے میں (اور آج کل ہزار دو ہزار میں) تیار ہوتا ہے مرد نے سمجھا تھا کہ خیر سو دو سو ہی میں پاپ کٹا مگر بیوی نے کہا کہ یہ تو شاہانہ جوڑا ہے‘ چوتھی کا الگ ہونا چاہے وہ بھی اسی کے قریب لاگت میں تیارہوا‘ پھر فرمائش ہوتی ہے کہ جہیز میں دینے کو بیس پچیس جوڑے اور ہونے چاہئیں غرض کپڑوں ہی کپڑوں میں سیکڑوں (ہزاروں) روپے لگ جاتے ہیں۔ (حقوق الزوجین صفحہ ۵۲‘ ۳۴۶) جب برادری میں خبر مشہور ہوتی ہے کہ فلاں گھر میں تقریب ہے تو ہر بی بی کو نئے قیمتی جوڑے کی فکر ہوتی ہے کبھی خاوند سے فرمائش ہوتی ہے کبھی خود بزاز (کپڑا بیچنے والے) کو دروازہ پر بلا کر اس سے ادھار لیا جاتا ہے یا سودی قرض لے کر اس سے خریدا جاتا ہے۔ شوہر کو اگر وسعت نہیں ہوتی تب بھی اس کا عذر قبول نہیں ہوتا۔ ظاہر ہے یہ جوڑا محض ریا اور تفاخر کے لئے بنتا ہے اس غرض سے مال خرچ کرنا اسراف ہے۔ خاوند سے اس کی وسعت سے زیادہ بلا ضرورت فرمائش کرنا اس کو ایذا پہنچانا ہے اگر خاوند کی نیت ان فرمائشوں سے بگڑ گئی اور حرام آمدنی پر اس کی نظر پہنچی‘ کسی کا حق تلف کیا‘ رشوت لی اور فرمائشیں پوری کیں اب سب گناہوں کا باعث یہ بی بی بنی۔ ان رسموں کے پور اکرنے میں اکثر مقروض بھی ہوتے ہیں گو باغ ہی فروخت یا گروی ہو جائے اور گو سود لینا پڑے اور اس میں التزام ما لا یلزم اور نمائش‘ شہرت‘