اسلامی شادی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
لڑکی والے پیغام دیں یا لڑکے والے صحابہ میںتو بعض دفعہ باپ نے خود اپنی بیٹی کے لئے پیام دیا ہے چنانچہ جب حضرت حفصہ رضی اللہ عنھا پہلے شوہر سے بیوہ ہوئیں تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا کہ حفصہ بیوہ ہو گئی ہے اس سے تم نکاح کر لو۔ وہاں ہندوستان کی رسم نہ تھی کہ باپ کا خود بیٹی کے لئے کہنا حرام سمجھتے ہیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں سوچ کر جواب دوں گا‘ چنانچہ انہوں نے عذر کر دیا اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا کہ حفصہ بیوہ ہو گئی ہے آپ اس سے نکاح کر لیجئے انہوں نے جواب دیا کہ میں سوچوں گا پھر کچھ جواب ہی نہ دیا آخر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا جب پیغام آیا اور نکاح کر دیا پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ملے‘ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرے کچھ جواب نہ دینے پر تم کچھ خفا ہو گئے ہو گے؟ بھائی ہم نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو حفصہ کا ذکر فرماتے ہوئے سنا تھا اس لئے ہم نے جواب میں توقف کیا کہ نہ خود قبول کر سکتا تھا نہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا راز ظاہر کر سکتا تھا اور صاف جواب دینے میں شبہ تھا کہ تم کہیں اور منظور نہ کر لو غرض عرب میں ایسی بے تکلفی تھی کہ باپ اپنی بیٹی دیتے ہوئے نہیں شرماتا تھا۔ بلکہ عورتیں آ کر عرض کرتیں کہ یا رسول اللہ! ہم سے نکاح کر لیجئے۔ ایک مرتبہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی لڑکی نے کہا یہ عورت کیسی بے حیا تھی‘ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تجھ سے اچھی تھی اس نے اپنی جان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو حبہ کر دی غرض عرب میں یہ کوئی عیب نہ تھا۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ ہم بھی ایسا ضرور کریں لیکن اگر کوئی کرے تو مضائقہ نہیں۔ (عضل الجاہلیہ صفحہ ۲۶۱) شادی کس عمر میں کرنی چاہئے لڑکیوں کی جلد شادی نہ کرنے کے مفاسد بعض نا عاقبت اندیش کنواری لڑکیوں کو بالغ ہو جانے کے بعد بھی کئی کئی سال بٹھلائے رکھتے ہیں۔ اور محض ناموری کے سامان کے انتظار میں ان کی شادی نہیں کرتے حتیٰ کہ بعض بعض تیس تیس اور کہیں چالیس چالیس برس کی عمر کو پہنچ جاتی ہیں۔ اور اندھے سرپرستوں کو کچھ نظر ہی نہیں آتا کہ اس کا انجام کیا ہوگا حدیثوں میں جو اس پر وعید آئی ہے کہ اگر اس صورت میں عورت سے کوئی لغزش ہو گئی تو وہ گناہ باپ پر بھی لکھا جاتا ہے یا جو (بھی باپ کے قائم مقام مثلاً بھائی) ذی اختیار ہو اس پر بھی لکھا جاتا ہے۔