اسلامی شادی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
زبردستی کا نکاح بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے اس کی (بیوہ کی) زبان سے اذن کہلوایا تھا (یعنی اجازت لے لی تھی) تو یہ زبان سے کہلوانا بھی محض نام کرنے کو ہے تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ بے پوچھے نکاح کر دیا۔ کیونکہ مسئلہ یہ ہے کہ بیوہ کا نکاح بغیر زبان سے کہے جائز نہیں ہوتا۔ طیب خاطر (دلی رضامندی) کا اس میں بالکل خیال نہیں کیا جاتا اور بعض مرتبہ تو بے پوچھے ہی نکاح کر دیتے ہیں اور بعض لوگ زبان سے کہلواتے ہیں۔ مگر پھر بھی تو اس پر ظلم ہو اکیونکہ یہ لوگ اپنے آپ کو مالک سمجھ کر کہلواتے ہیں۔ دوسری خرابی اس میں یہ ہے کہ ماں باپ کو مالک نہیں سمجھتے۔ (ایضاً صفحہ ۳۷۴) عورت کے بیوہ ہو جانے کے بعد سسرال والوں کو کیا کرنا چاہئے‘ اسلامی تعلیم (شوہر کے مر جانے اور عورت کے بیوہ ہو جانے کے بعد ) ان کو (میراث کا) حصہ دے کر (عدت کے بعد) اس کے ماں باپ کے سپرد کر دو‘ اپنے گھر میں نہ رکھو‘ کیونکہ جب تک اپنے گھر میںرکھو گے یہ خیال دل سے نہ نکلے گا تو واجب ہے کہ حصہ دے کر ماں باپ کے سپرد کر دو‘ خواہ وہ اس کو بٹھا دیں یا کہیں نکاح کر دیں۔ (عضل الجاہلیہ صفحہ ۳۸۴) ---- کفاء ت (برابری) کا بیان کفاء ت کی اہمیت اور کفو میں شادی نہ کرنے کی خرابی شریعت نے کفاء ت (برابری) میں چند اوصاف کا اعتبار کیا ہے اور بہتر یہی ہے کہ منکوحہ (لڑکی) اپنے ہی کفو کی لائے۔ کیونکہ غیر کفو کے اخلاق و عادات اکثر اپنے موافق نہیں ہوتے۔ جس کی وجہ سے ہمیشہ آپس میں ناچاقی رہتی ہے۔ تو ایک مسلمان عورت کو بلا وجہ عمر بھر کے لئے بے قدر کرنا کیا ضروری ہے۔ نیز عرفاً اس کی اولاد کی شادی میں دشواریاں پیش آتی ہیں۔ اس لئے بلا ضرورت ان کلفتوں میں کیوں پڑے۔ اگر اولاد غیر کفو سے ہوئی تو اہل برادری عرفاً اس کو اپنے برابر کا نہیں سمجھیں گے اور اس کے شادی وغیرہ کرنے میں تنگی ہوگی۔ (اصلاح انقلاب صفحہ ۲۵ تا ۱۱۲) الغرض (غیر کفو میں نکاح)غیرت و مصلحت کے بھی خلاف ہے شریفہ کودنی (کم مرتبہ والے) کا فراش بنایا جاتا ہے۔ نیز اکثر ایسے موقع پر عورت کی نظر میں خاوند کی وقعت بھی نہیں ہوتی جس سے نکاح کی تمام مصلحتیں فوت ہو جاتی ہیں۔ (ایضاً صفحہ ۱۱۱ جلد ۲) کفاء ت کا اعتبار کرنے کی وجہ اور اس کا دارومدار