اسلامی شادی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نقد دام لگا کر حساب کر لیا جائے اور حساب کے وقت گندم کا نرخ (گیہوں کا بھائو) ایک روپیہ کا دس سیر ہے اور اس حساب سے چالیس سیر غلہ چار روپیہ کا ہوا۔ سو اگر اسی جلسہ میں چاروں روپیہ وصول ہو جائیں تب تو پورے غلہ کا حساب کر لینا جائز ہے اور اگر فرض کیجئے کہ اس کو صرف دو روپے وصول ہوں تو اس وقت صرف بیس ہی سیر کا حساب کرنا چاہئے۔ اب کاشت کار کے ذمہ بیس سیر غلہ باقی رہے گا۔ (اب آئندہ جب اس کی ادائیگی نقد دام کے ذریعے کرے گا تو اس وقت کے بھائو کا اعتبار ہو گا پہلے بھائو کا اعتبار نہ ہو گا) (اصلاح انقلاب صفحہ ۱۴۲ جلد ۲) عورت سے مہر معاف کروانا ذلت اور عیب کی بات ہے نفس میں ایک کم ہمتی پیدا ہوتی ہے جو خلاف غیرت ہے وہ یہ کہ عورت سے (مہر) معاف کرایا جائے اس سے درخواست کی جاتی ہے یہ درخواست ہی ذلت سے خالی نہیں۔ (اگرچہ عورت کا معاف کر دینا مباح ہے لیکن) باوجود مباح ہونے کے مرجوح (اور نا پسندیدہ) ((لکونہ ابعد من الغیرۃ)) کیونکہ یہ غیرت کے خلاف ہے ((ولا تنسر الفضل بینکم)) میں اسی طرف اشارہ ہے۔ (اصلاح انقلاب صفحہ ۱۳۴ جلد ۲) غیرت کا مقتضی یہی ہے کہ عورت کے مہر کی معافی کو قبول نہ کرو‘ بلکہ تم اس کے ساتھ خود احسان کرو۔ اگر عورت معاف بھی کر دے پھر بھی ادا کر دینا چاہئے‘ کیونکہ غیرت کی بات ہے بلا ضرورت عورت کا احسان نہ لے۔ (انفاس عیسیٰ صفحہ ۳۰۱ جلد۱‘ حسن العزیز صفحہ ۳۳۲ جلد ۱) ہر معافی معتبر نہیں‘ دلی رضامندی شرط ہے یہ اس وقت تک ہے جب کہ مرد اس معافی طلب کرنے میں طیب نفس (یعنی عورت کی دلی رضامندی) کی رعایت کرے ورنہ اگر غیر ت کے ساتھ خوف خدا بھی مفقود ہے‘ تو وہ صرف لفظی معافی کی ناجائز تدبیریں نکالے گا‘ یعنی یا عورت کو دھوکا دے گا یا اس کو دھمکائے گا یا اس پر جبر کرے گا جس سے وہ معاف کر دے گی۔ مگر یاد رہے کہ ایسی معافی عند اللہ ہرگز معتبر اور مقبول نہیں۔ اس صورت میں عند اللہ بدستور ذمہ داری کے بوجھ تلے رہے گا۔ (اصلاح انقلاب صفحہ ۱۳۴ جلد ۱) نابالغہ بیوی کا مہر معاف نہیں ہو سکتا بعض لوگ ایسے ہی یا طلاق دینے کے وقت نابالغہ بیوی سے مہر معاف کرا لیتے ہیں سو یہ معافی معتبر نہیں۔ ((لان تبرع الصغیر باطل)) ’’نابالغ کا تبرع کرنا باطل ہے۔‘‘ (ایضاً صفحہ ۱۳۹ جلد ۲) اگر (ولی باپ) چچا بھی منظور کرے تب بھی مہر معاف نہیں ہو سکتا۔ (امداد الفتاویٰ صفحہ ۳۰۵ جلد ۲) مہر عورت کا حق ہے اس کا مانگنا عیب کی بات نہیں ایک عملی غلطی یہ ہے کہ عورتیں مہر مانگنے کو یا بے مانگے لینے کو عیب سمجھتی ہیں اور اگر کوئی ایسا کرے تو اس کو بدنام کرتی ہیں۔ سو (خوب سمجھ لینا چاہئے کہ) اپنے حق واجب کا مانگنا یا وصول کرنا جب شرعاً کچھ عیب نہیں تو محض اتباع رسم کی وجہ سے اس کو عیب سمجھنا گناہ سے خالی نہیں۔ (اصلاح انقلاب صفحہ ۱۳۹ جلد ۲) عرب اور ہندوستان کے دستور کا فرق