اسلامی شادی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہی نہیں اتنی عورتیں کہاں نماز پڑھیں۔ کیوں بیبیو ! سارے کام کے لئے جگہ ہے اور نماز کے لئے جگہ نہیں؟ کیا جس وقت سونے کا وقت آئے گا اس وقت ان کو لیٹنے کے لئے بھی جگہ نہیں ملے گی لیٹنے کے لئے تو ضرور جگہ ملے گی اگر کسی بی بی کو ذرا سی بھی تکلیف ہو گئی تو ساری برادری میں نک کٹی ہو جائے گی۔ اگر بیبیاں سونے کے برابر بھی نماز کو ضروری سمجھتیں تو نماز کی جگہ نہ ملنے پر بھی برادری میں نک کٹی کر دیں۔ مگر نماز پڑھنا ہی نہیں یہ سب حیلے بہانے ہیں۔ اور کچھ بھی ہو فرض کر لیجئے کہ جگہ بالکل نہیں ہے تو حق تعالیٰ کب اس کے ذمہ دار ہیں۔ کیا حق تعالیٰ نے حکم دیا تھا کہ ایسے مجمع میں جائو جہاں نماز بھی نہ پڑھ سکو جب وقت آئے تو لاکھ تدبیر کرو اور نماز اد اکرو‘ مجمع میں پڑھو یا مجمع میں خاک ڈالو۔ گھر جا کر نماز ادا کرو‘ جس صورت سے بھی ہو نماز چھوڑ کر گناہ سے نہیں بچ سکتیں اگر مجمع نماز پڑھنے کو مانع ہوتا ہے تو شریعت اس مجمع کو بھی جائز نہیں رکھتی۔ اگر ایک نماز بھی ان تقریبات میں چھوٹ گئی تو ان کے قبیح ہونے کے لئے کافی ہے مگر ہم کو ان کے حسن و قبح (اچھائی برائی) کی خبر ہی نہیں۔ (منازعۃ الہویٰ صفحہ ۴۶۳) شادی کے لئے قرض عورتیں جب شادی بیاہ کے خرچ مردوں کو بتلاتی ہیں اور خاوند پوچھتا ہے کہ اتنا خرچ میں کہاں سے کروں۔ مجھ میں تو اتنی گنجائش نہیں ہے تو وہ کہتی ہیں کہ قرضہ لے لو‘ شادی کا قرضہ رہا نہیں کرتا سب ادا ہو جاتا ہے خدا جانے یہ انہوں نے کہاں سے سمجھ رکھا ہے کہ شادی اور تعمیر کا قرضہ ادا ہی ہو جاتا ہے چاہے وہ سودی ہی قرض ہو اور چاہے خرچ بے تکا ہی ہو۔ صاحب! ہم نے تو ان قرضوں میں جائیدادیں نیلام ہوتے دیکھی ہیں۔ اور جب یہ نوبت پہنچ گئی تو اب لوگ خود بھی ان کی برائی کچھ سمجھ گئے ہیں مگر پھر بھی پوری عقل نہیں آئی۔ ابھی بہت کچھ رسوم باقی ہیں۔ شرک و بدعت کی رسمیں تو کم ہو گئیں لیکن تفاخر کی رسمیں بڑھ گئی ہیں۔ برتنوں اور فرش و فروش میں قسم قسم کے تکلف پیدا ہو گئے ہیں۔ پہلے یہ حالت تھی کہ اس قسم کی بڑھیا چیزیں کسی ایک دو شخص کے یہاں ہوتی تھیں شادی بیاہ میں سب لوگ ان سے مانگ کر کام نکال لیا کرتے تھے۔ (دین و دنیا صفحہ ۵۰۰) شادی کے لئے قرض دینے کا حکم فرمایا کہ (ایسی) شادی بیاہ میں قرض دینا جس سے رسومات ادا کئے جائیں یا اسراف کیا جائے ممنوع ہے۔ کیونکہ گو اس مقرض (قرض دینے والے) کی نیت اتلاف مال (مال کو برباد کرنے) کی نہ ہو مگر تلف کا وقوع تو ہوا یعنی مال برباد تو ہوا جس کا سبب اس شخص کا فعل ہے (جس نے قرض دیا ہے) اور امر منکر کا مباشر بننا جس طرح منکر (گناہ) ہے۔ اسی طرح سبب بننا بھی (گناہ ہے) {وَلاَ تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ} (کمالات اشرفیہ صفحہ ۵۱)