اسلامی شادی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
شرف تو ان کو حاصل تھا کہ ان حضرات کی صاحبزادیاں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج مطہرات میں داخل تھیں۔ اب یہ شرف بھی ان کو حاصل ہو جائے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے داماد بنیں مگر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ((انھا لصغیرۃ)) کہ وہ کمسن بہت ہیں ان حضرات کی عمر زیادہ تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے تناسب العمرین کی رعایت فرما کر دونوں صاحبوں کی درخواست رد فرما دی۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کی شادی کے قصہ سے مقصود یہ تھا کہ حضرات شیخین سے شادی کرنے میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ عذر فرمایا تھا کہ وہ بچی ہے۔ ایک جزء تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ اگر لڑکی چھوٹی ہو تو شوہر کی عمر زیادہ نہ ہونی چاہئے اور بے جوڑ شادی مناسب نہیں۔ (دعوات عبدیت عضل الجاہلیہ) لڑکا لڑکی کی عمر میں کتنا فرق ہونا چاہئے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کی عمر شادی کے وقت ساڑھے پندرہ سال کی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی عمر اکیس برس کی تھی اس سے معلوم ہوا کہ دولہا دلہن کی عمر میں تناسب بھی ملحوظ رکھنا مناسب ہے۔ اور بہتر یہ ہے کہ دولہا کسی قدر دلہن سے عمر میں بڑا ہو۔ (اصلاح الرسوم صفحہ ۹۰) حکماء نے کہا ہے کہ اگر عورت کچھ چھوٹی ہو تو مضائقہ نہیں اور اس میں راز یہ ہے کہ عورت محکوم ہوتی ہے اور مرد حاکم۔ نیز عورت کے قویٰ ضعیف ہوتے ہیں اور اسی لئے جلد بوڑھی ہو جاتی ہے اگر دو چار سال کا تفاوت ہو تو کھپ سکتا ہے۔ (حقوق الزوجین صفحہ۳۷۱) بے جوڑ شادی میں لڑکی کو انکار کر دینا چاہئے امام صاحب رحمہ اللہ کی روح پر ہزاروں رحمتیں ہوں وہ یہ فرماتے ہیں کہ جب لڑکی بالغ ہو جائے تو اس پر کسی کا اختیار نہیں رہتا۔ یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے مگر اتفاق سے امام صاحب کا فتویٰ بالکل مصلحت کے موافق ہے۔ آج کل اس کو بے شرمی سمجھتے ہیں کہ ماں باپ نکاح کرنا چاہیں اور لڑکی انکار کر دے حالانکہ استدعاء (شادی کی فرمائش کرنا) بے شرمی ہے۔ انکار کرنا بے شرمی نہیں بلکہ یہ تو عین حیا ہے کہ بیاہ کے نام کو پسند نہیں کرتی‘ دیکھ لو یہ عقل کی بات ہے یا نہیں تو ایسے مواقع میں لڑکیوں کو ضرور انکار کر دینا چاہئے۔ (عضل الجاہلیہ صفحہ ۳۷۰) کم عمر لڑکی کے زیادہ عمر والے سے رشتہ کرنے کے مفاسد اگر لڑکی کم سن اور مرد مسن (زیادہ عمر والا) ہو تو غالب یہ ہے کہ وہ بے چاری بہت جلد بیوہ ہو جائے گی۔ لوگ ہم عمری کا قطعی خیال نہیں کرتے۔ بے زبان لڑکی یعنی کنواری یا مثل کنواری غیر ذی رائے تیرہ تیرہ برس کی لڑکیوں کو ساٹھ ساٹھ برس کے بوڑھوں کے ساتھ بیاہ دیتے ہیں۔ یہاں بھی وہی مفاسد ہوتے ہیں کہ اگر عورت عفیفہ پاکدامن اور خود کو پارسا رکھنے والی ہو تب تو وہ تمام عمر کے لئے قید میں مبتلا ہو گی۔ اور اگر اس صفت سے خالی ہوئی تو بدکاری میں مبتلا ہوئی اور دونوں حالتوں میں میاں بیوی میں ناگوار رنجش اور نااتفاقی (ضرور) ہو گی دوسری صورت میں دونوں کی بے آبروئی بلکہ دونوں کے خاندان کی بھی ساتھ ساتھ رسوائی ہے۔ اور سب سے بڑا مفسدہ یہ ہے کہ اکثر بوڑھا پہلے مر جاتا ہے اور مظلومہ اکثر رسم و