اسلامی شادی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہیں۔ ہم کیسے اس میں جائیں؟ شریعت کو ایسی ہولناک چیز فرض کر لیا ہے کہ جو دنیا داروں کے بس کی نہیں۔ (حالانکہ) شریعت میں بہت وسعت ہے۔ (حقوق الزوجین صفحہ ۴۷۶) رسوم و رواج کو ختم کرنے کا شرعی طریقہ رسوم و رواج میں عمل کی تبدیلی بھی ضروری ہے۔ (کیونکہ) سینہ سے حرج (اور لزوم) نکلتا نہیں مگر عمل کو ایک مدت تک بدل دینے سے۔ اسی لئے اخراج حرج (یعنی دل سے اس کی برائی ختم کرنے) کے لئے ایسا کرنے سے ضرور عنداللہ ماجور ہو گا۔ اس کی نظیر میں حدیث شریف موجود ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مرتبہ بعض روغنی برتوں میں نبیذ بنانے سے منع فرما دیا تھا۔ پھر فرمایا ((کنت نھیتکم عن الدبا و الحنتم فانبذوا فیھا فان الظرف لا یحل شیئا ولا یحرم)) ’’یعنی پہلے میں نے روغنی برتنوں میں نبیذ بنانے سے منع کر دیا تھا اب اس میں نبیذ بنایا کرو۔‘‘ اور علت ارشاد بیان فرماتے ہیں کہ برتن نہ کسی چیز کو حرام کرتا ہے اور نہ حلال کرتا ہے۔ پھر بھی اس کے باوجود منع فرما دیا تھا وجہ صرف یہ تھی کہ لوگ شراب کے عادی ہیں تھوڑے سے نشہ کو محسوس نہ کرسکیں گے اور ان برتنوں میں پہلے شراب بنائی جاتی تھی‘ اس لئے خمر (شراب) سے پورا اجتناب نہ کر سکیں گے‘ اور گنہگار ہوں گے پس پورے اجتناب (بچنے) کا طریقہ یہی ہے کہ ان برتنوں میں نبیذ بنانے سے مطلقاً روک دیا جائے جب طبیعتیں شراب سے بالکل متنفر ہو جائیں اور ذرا سے نشہ کو پہچاننے لگیں تو پھر اجازت دے دی جائے۔ اسی طرح ان رسموں کی حالت ہے کہ ظاہری اباحت کو دیکھ کر لوگ اس کو اختیار کرتے ہیں اور ان منکرات کو نہیں پہچانتے جو ان کے ضمن میں پائے جاتے ہیں تو اس کے لئے اصلاح کا کوئی طریقہ نہیں ہو سکتا سوائے اس کے کہ چند روز تک اصل عمل ہی کو ترک کر دیں اور یہ بات کہ اصل عمل باقی رہے اور منکرات عام طور سے دور ہو جائیں سو ہمارے امکان سے تو باہر ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہی نے یہ طریقہ اختیار فرمایا تھا تو ہم کیا ہیں کہ اس کے سوا تدبیریں اختیار کرتے پھریں جب ایک تدبیر عقلاً بھی مفید معلوم ہوتی ہے۔ اور نقلاً بھی ثابت ہو چکی ہے تو ضرورت ہی کیا ہے کہ اس سے عدول کیا جائے۔ سب رسموں کو یکبارگی منع کرنے کے متعلق حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی رائے ایک شخص نے شادی کی رسموں کے متعلق مجھ سے کہا کہ ایک دم سے سب رسموں کو نہ منع کیا کرو‘ ایک ایک کر کے منع کرو‘ میں نے کہا سلام ہے۔ جب میں ایک کو منع کروں گا‘ ایک کو منع نہ کروں گا تو لوگ مجھ سے بد گمان ہوں گے کہ رسوم ہونے میں تو دونوں برابر ہیں پھر ایک کو کیوں منع کیا اور ایک کو کیوں منع نہ کیا پھر بار بار منع کرنے سے قلب میں تنگی پیدا ہوگی کہ یہ تو روز ایک بات کو منع ہی کرتے رہتے ہیں۔ خدا جانے کہاں تک قید کریں گے اس لئے منع تو سب سے کروں گا مگر مجبور نہیں کرتا کہ سب کو ایک دم سے چھوڑ دو‘ تم چھوڑنے میں ایک ایک کر کے چھوڑ دو۔