اسلامی شادی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اوقات میں ہو تو سوائے تعدد (دوسری بیویوں) کے اس کا کیا علاج ہے اگر ان اوقات میں یا اس قسم کے دوسرے وقفات میں دوسری عورت سے نکاح کی اجازت نہ دی جائے تو پھر اس خواہش کو پورا کرنے کے لئے وہ ضرور ناجائز ذرائع استعمال کریں گے۔ (المصالح العقلیہ صفحہ ۱۹۵) تعدد ازواج عقلی نقطہ نظر سے تاریخ کی روشنی میں خود عورتوں کو بعض وقت ایسی مجبوریاں آپڑتی ہیں کہ اگر ان کے لئے یہ راہ کھلی نہ رکھی جائے کہ وہ ایسے مردوں سے نکاح کر لیں جن کے گھروں میں پہلے سے عورتیں موجود ہیں تو اس کا نتیجہ بدکاری ہو گا کیونکہ ہر سال دنیا کے کسی نہ کسی حصہ میں لاکھوں مردوں کی جانیں لڑائیوں میں تلف ہو جاتی ہیں اور عورتیں بالکل محفوظ رہتی ہیں اور ایسے واقعات ہمیشہ پیدا ہوتے رہتے ہیں اور جب تک دنیا میں مختلف قومیں آباد ہیں ایسے واقعات ہمیشہ پیدا ہوتے رہیں گے اور ہمیشہ مردوں کی تعداد میں کمی ہو کر عورتوں کی تعداد بڑھ جائے گی اب یہ عورتیں جو مردوں کی تعداد سے زیادہ ہوں گی ان کے لئے کیا سوچا گیا ہے؟ تعدد ازواج کی ممانعت کی صورت میں ان کا کیا حال ہوگا ؟ کیا ان کو یہی جواب نہ ملے گا کہ جس کے دل میں مرد کی طرف وہ خواہش پیدا ہو جو قدرت نے انسانی فطرت میں رکھی ہے۔ وہ ناجائز طریقوں سے اس کو پورا کرے۔ تعدد ازواج کے سوا کوئی ایسی راہ نہیں جو ان ضروریات کو پورا کرسکے۔ برطانیہ کلاں میں بوئروں کی جنگ سے پہلے بارہ لاکھ انہتر ہزار تین سو پچاس عورتیں ایسی تھیں جن کے لئے ایک بیوی والے قاعدہ کی رو سے کوئی مرد مہیا نہیں ہو سکتا۔ فرانس میں ۱۹۰۰ ء کی مردم شماری میں ہر ہزار مرد کے لئے ایک ہزار بتیس عورتیں موجود تھیں گویا کل آبادی میں آٹھ لاکھ ستاسی ہزار چھ سو اڑتالیس عورتیں ایسی تھیں جن سے شادی کرنے والا کوئی مرد نہ تھا۔ سوئیڈن میں ۱۹۰۱ء کی مردم شماری میں ایک لاکھ بائیس ہزار آٹھ سو ستر عورتیں اور ہسپانیہ میں ۱۸۹۰ ء میں چار لاکھ ستاون ہزار دوسو باسٹھ عورتیں اور آسٹریلیا میں ۱۸۹۰ء میں چھ لاکھ چو الیس ہزار سات سو چھیانوے عورتیں مردوں سے زیادہ تھیں۔ اب ہم سوال کرتے ہیں کہ جو قوانین انسانوں کی ضروریات کے لئے تجویز کئے جاتے ہیں وہ انسانوں کی ضروریات کے مطابق بھی ہونے چاہئے یا نہیں۔ اس پر فخر کرنا تو آسان ہے کہ ہم تعدد ازواج کو برا سمجھتے ہیں مگر یہ بتا دیا جائے کہ کم از کم ان چالیس لاکھ عورتوں کے لئے کون سا قانون تجویز کیا گیا ہے۔ کیونکہ ایک بیوی کے قاعدے کی رو سے یورپ میں توان کے خاوند مل نہیں سکتے۔ وہ قانون جو تعدد ازواج کو منع کرتا ہے ان چالیس لاکھ عورتوں کو یہ کہتا ہے کہ وہ اپنی فطرت کے خلاف چلیں اور ان کے دلوں میں مردوں کی کبھی خواہش نہ پیدا ہو لیکن یہ تو ناممکن ہے پس نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ ناجائز طریقہ اختیار کریں گی‘ زنا کی کثرت ہو گی اور یہ محض خیال نہیں واقعی امر ہے اور یہ سب تعدد ازواج کی مخالفت کا نتیجہ ہے۔ (المصالح العقلیہ صفحہ ۱۹۸) صرف چار تک بیویاں رکھنے کی اجازت کیوں ہے؟ اب رہی یہ بات کہ چار سے زائد عورتیں نکاح میں لانا کیوں ناجائز ہے تو غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ضروری تھا کہ بیویاں کرنے کی ایک خاص حد ہوتی ورنہ اگر