اسلامی شادی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
مشکل سے نکل سکتے ہیں۔ جب یہ حالت ہے تو یہ قاعدہ سننے کے قابل ہے کہ کسی شخص کے مباح فعل سے جو حد ضرورت سے ادھر نہ ہو (یعنی واجب نہ ہو) دوسرے شخص کو ضرر پہنچنے کا غالب گمان یا یقین ہو تو وہ فعل اس کے حق میں مباح نہیں رہتا۔ تو اس قاعدہ سے یہ اعمال و افعال اس محفوظ شخص کے حق میں بھی اس وجہ سے کہ دوسرے لوگ تقلید کر کے خراب ہوں گے ناجائز ہو جائیں گے۔ قومی ہمدردی کا تقاضا اس شرعی قاعدہ کا حاصل وہ ہے جس کو عقلی قانون میں قومی ہمدردی کہتے ہیں۔ یعنی ہمدردی کا مقتضاء یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو دوسروں کو نفع پہنچائے۔ اگر یہ بھی نہ ہو تو دوسروں کو نقصان نہ پہنچائے۔ کیا کوئی باپ جس کے بچہ کو حلوہ نقصان کرتا ہے اس کے سامنے بیٹھ کر حلوہ کھانا محض مزے کے لئے پسند کرے گا۔ کیا اس کو خیال نہ ہو گا کہ میری حرص سے شاید بچہ بھی کھائے اور بیماری بڑھ جائے۔ کیا ہر مسلمان کی ہمدردی اسی طرح ضروری نہیں۔ اس سے عقلاً و نقلاً سمجھ میں آ گیا ہو گا کہ کسی کے لئے بھی ان رسوم کی اجازت نہیں۔ (امداد الفتاویٰ صفحہ ۲۷۱ جلد ۵) چونکہ ان خرابیوں کی برائی بدیہی ہے اس لیے زیادہ دلائل قائم کرنے کی حاجت نہیں۔ پس مسلمانوں کو فرض و واجب ہے اور ایمان و عقل کا مقتضیٰ یہ ہے کہ ان خرابیوں کی برائی جب عقلاً و نقلاً ثابت ہو گئی تو ہمت کر کے سب کو خیر باد کہے اور نام و بدنامی پر نظر نہ کرے۔ بلکہ تجربہ شاہد ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں عزت و نیک نامی ہے۔ (اصلاح الرسوم صفحہ ۸۷) بارات مجموعہ معصیت ہے جو رسوم شریعت کے خلاف اکثر شادیوں میں ہوا کرتی ہیں ان ہی سے وہ مجمع معصیت کا مجمع ہو جاتا ہے وہاں نہ بیٹھے‘ اور رسوم تو الگ رہیں آج کل خود بارات ہی مجمع معصیت ہے‘ اگر کوئی خرابی نہ ہو تو یہ خرابی تو ضرور ہی باراتوں میں ہوتی ہے کہ (عموماً) باراتی مقدار دعوت سے زائد جاتے ہیں‘ جس کی وجہ سے بے چارے میزبان کو سخت دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کہیں قرض لیتا ہے کہیں اور کچھ فکر کرتا ہے۔ غرض بہت خرابی ہوتی ہے۔ (حقوق و فرائض صفحہ ۴۹۹) شادی میں لڑکی والوں کے یہاں مجمع فرمایا کہ بھائی منشی اکبر علی صاحب کی ایک لڑکی کی شادی میں میں اس لئے شریک نہیں ہوا تھا کہ ان کے گھر والوں نے مجمع کا اہتمام کیا تھا۔ انہوں نے پھر مجھ سے کہا کہ ہم مجمع نہیں کریں گے میں نے کہا اس میں تمہاری اہانت ہو گی اور ان کی دل شکنی ہو گی کیونکہ پہلے ان کو مہمان بنا لیا گیا ہے انہوں نے غایت خوش فہمی سے میری عدم شرکت منظور کر لی اور کہا کہ تم صاحب منصب ہو تمہارے متعلق دین کا کام ہے میں دین میں خلل نہیں ڈالنا چاہتا۔ (حسن العزیز صفحہ ۳۴۳) آج کل حتی الامکان بیاہ شادی میں شرکت سے بچنا ہی بہتر ہے تقریبات (شادیوں) میں اگر اور کوئی رسم نہ بھی ہو تب بھی یہ تو ضرور ہے کہ جس کا