اسلامی شادی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
صلی اللہ علیہ و سلم نے خود نوشہ کے ہونے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ پھر بارات کا ہونا کیوں ضروری سمجھا جائے۔ (عضل الجاہلیہ صفحہ ۳۶۶‘ اصلاح الرسوم صفحہ ۶۲) بارات کے چند مفاسد بارات نااتفاقی اور ذلت کا سبب ہے اس بارات کے لئے کبھی دولہا والے کبھی دلہن والے بڑے بڑے اصرار و تکرا ر کرتے ہیںاور اس سے مقصود صرف ناموری اور تفاخر ہے۔ اکثر اس میں ایسا بھی کرتے ہیں کہ بلائے پچاس اور جا پہنچے سو‘ سو اول تو بن بلائے اس طرح کسی کے گھر جانا حرام ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ جو شخص دعوت میں بن بلائے جائے وہ گیا تو چور ہو کر اور نکلا لٹیرا ہو کر۔ یعنی ایسا گناہ ہوتا ہے جیسے چوری اور لوٹ مار کرنا۔ پھر دوسرے شخص کی اس میں بے آبروئی بھی ہو جاتی ہے۔ کسی کو رسوا کرنا یہ دوسرا گناہ ہوا۔ پھر ان امور کی وجہ سے اکثر جانبین میں ایسی ضدا ضدی اور بے لطفی (و کدورت بلکہ بس اوقات رنجش) ہوتی ہے کہ عمر بھر قلوب میں اس کا اثر باقی رہتا ہے۔ چونکہ نااتفاقی حرام ہے اس لئے اس کے اسباب بھی حرام ہونگے‘ اس لئے یہ فضول رسم ہرگز ہرگز جائز نہیں۔ (اصلاح الرسوم صفحہ ۶۳) اب تو ان رسموں کی بدولت بجائے محبت و الفت کے جو کہ میل ملاپ سے اصلی مقصود ہے اکثر رنج و تکرار اور شکایت (کی نوبت آجاتی ہے) پرانے کینوں تازہ کرنا اور صاحب تقریب کی عیب جوئی اور تذلیل کے درپے ہونا اور اس طرح کی دوسری خرابیاں دیکھی جاتی ہیں۔ اور چونکہ ایسا لینا دینا‘ کھانا کھلانا عرفاً لازم ہو گیا ہے اس لیے کچھ فرحت و مسرت بھی نہیں ہوتی نہ دینے والے کو کہ وہ ایک بے گار سی اتارتا ہے نہ لینے والے کو کہ وہ اپنا حق ضروری یا معاوضہ سمجھتا ہے۔ پھر لطف (و محبت) کہاں۔ اس لئے ان تمام خرافات کا حذف کرنا واجب ہے۔ (اصلاح الرسوم صفحہ ۸۸) میں بارات کی رسم کو حرام سمجھتا ہوں یہ خرابیاں ہیں بارات میں جن کی وجہ سے بارات کو منع کیا جاتا ہے اور میں جو پہلے باراتوں میں جایا کرتا تھا اس و قت تک میری سمجھ میں یہ خرابیاں نہ آئی تھیں۔ اب میں ان رسموں کو بالکل حرام سمجھتا ہوں اور اگر تمہاری سمجھ میں نہ آئے تو اصلاح الرسوم (دوسرے باب کی چھٹویں فصل اور امداد الفتاویٰ جلد پنجم صفحہ ۲۷۹) دیکھ لو اس میں میں نے تفصیلی دلائل لکھ دیئے ہیں‘ خدا نے میرے قلم سے بعض باتوں کی خرابیاں ظاہر کرا دیں جو دوسروں نے ظاہر نہیں کیں۔ اسی لئے لوگ مجھے سخت مشہور کرنے لگے۔ (عضل الجاہلیہ‘ حقوق الزوجین‘ صفحہ ۳۶۸) بیاہ شادی‘ بارات میں اگر آمد و رفت نہ ہو تو میل جول کی کیا صورت ہو بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر یہ رسوم (بارات) وغیرہ موقوف ہو جائیں تو پھر میل ملاپ کی کوئی صورت ہی نہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو میل ملاپ کی مصلحت سے معاصی (گناہوں) کا ارتکاب کسی طرح جائز نہیں ہو سکتا۔ پھر یہ کہ میل ملاپ اس پر موقوف بھی نہیں‘ بلا رسوم کی پابندی ( اور بارات) کے اگر ایک دوسرے کے گھر جائیں یا اس کو بلائیں‘ اس کو کھلائیں پلائیں‘ کچھ امداد و سلوک کریں جیسے یار دوستوں میں راہ و رسم جاری ہیں تو یہ ممکن ہے۔ (اصلاح الرسوم صفحہ ۸۷)