اسلامی شادی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اور حکمتیں ہیں۔ (نصرۃ النساء صفحہ ۵۵۳) نکاح نہ کرنے پر وعید حدیث میں ہے ((مَنْ تَبَتَّلْ فَلَیْسَ مِنَّا)) یعنی ’’ جو شخص باوجود تقاضائے نفس و قدرت کے نکاح نہ کرے وہ ہمارے طریقے سے خارج ہے‘‘ کیونکہ یہ طریقہ نصاریٰ کا ہے کہ وہ نفس نکاح کو وصول الی اللہ سے مانع سمجھ کر اس کے ترک کو (یعنی نکاح نہ کرنے کو) عبادت سمجھتے ہیں۔ (ملفوظات اشرفیہ صفحہ ۳۸۶) بعض لوگ تو نکاح نہ کرنے کو عبادت و قربت سمجھتے ہیں حالانکہ یہ اعتقاد رہبانیت اور دین میں بدعت ہے اصل عمل جس کا شریعت نے حکم دیا ہے نکاح ہی ہے تو اس کا ترک کرنا عبادت نہیں ہو سکتا۔ (اصلاح انقلاب صفحہ ۴۰ جلد ۲) وعید کی وجہ جب انسان کی حالت نکاح کی ضرورت کی ہو تو ترک نکاح سبب ہو جائے گا بہت سے فتنوں کا۔ (کیونکہ) تقاضے کی دو قسمیں ہیں ایک شدید تقاضا ایک مطلق تقاضا پس مطلق تقاضا تو کسی طرح بھی زائل نہیں ہونا چاہئے۔کوئی کیسا ہی مجاہدہ کرے اور کیسی ہی سرد دوائی استعمال کرے (مگرپھر بھی مطلق تقاضا باقی رہتا ہے) ہم نے ایک ستر برس کے بڈھے کو دیکھا ہے جسے ایک لڑکے سے محبت تھی حالانکہ وہ خود کسی مصرف کے نہ تھے مگر اس کی طرف دیکھنے کا تقاضا تھا اور تقاضا شہوت کے ساتھ تھا جو یقینا حرام ہے۔ غرض مجاہدہ سے یہ نہیں ہوتا کہ تقاضا بالکل زائل ہو جائے۔ بلکہ یہ نہ تو بڑھاپے سے (زائل ہو) نہ کسی دوا سے‘ نہ تقلیل غذا سے بس مجاہدہ کا نفع یہ ہے کہ تقاضا خفیف ہو جاتا ہے کہ پہلے مقاومت دشوار تھی اب آسان ہو گئی۔ اگر تقاضا بالکل زائل ہو جائے تو ثواب کیوں کر ہو گا‘ ثواب تو اسی واسطے ملتا ہے کہ آدمی تقاضا کا مقابلہ کر کے نیک کاموں پر جما رہتا ہے۔ (حقوق الزوجین صفحہ ۱۵۸) ترک نکاح کے اعذار اگر کسی کو عذر ہو (اور اس عذر کی وجہ سے نکاح نہ کر سکتا ہو) تو وہ حدیث مذکورہ کی وعید سے مستثنیٰ ہے۔ عذر بدنی ہو یا مالی یا دینی۔ عذر بدنی و مالی تو ظاہر ہے۔ دینی عذر یہ کہ نکاح کے بعد ضعف ہمت کی وجہ سے دین کی حفاظت نہ کر سکے گا‘ (یا دینی اشغال کی وجہ سے بیوی کے حقوق ادا نہ کر سکے گا)۔ (الملفوظات اشرفیہ صفحہ ۳۸۶) (خلاصہ یہ کہ) اگر اندیشہ ہے کہ بیوی کے حق ادا نہ کر سکے گا خواہ حق نفس ہو خواہ حق مال ہو تو ایسے شخص کے لئے نکاح ممنوع ہے۔ (اصلاح انقلاب صفحہ ۴۰) عذر نکاح سے متعلق چند احادیث ابن مسعود و ابوہریرہ w سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا‘ کہ آدمی کی ہلاکت اس کی بیوی اور ماں باپ اور اولاد کے ہاتھوں ہو گی اس شخص کو (غربت اور ناداری سے) عار دلائیں گے اور ایسی باتوں کی فرمائش کریں گے جس کو یہ برداشت نہیں کر سکے گا سو یہ ایسے کاموں کا ارتکاب کرے گا جس میں اس کا دین جاتا رہے گا (پھر یہ برباد ہو جائے گا)