اسلامی شادی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
فرمائی اور فلاں شخص نے یعنی میں نے شرکت نہیں کی یہ کیا بات ہے۔ حضرت نے جواب میں فرمایا کہ بھائی ہم نے فتویٰ پر عمل کیا اور اس نے تقویٰ پر عمل کیا یہ تو تواضع کا جواب ہے مگر اسی طرح کا سوال مولانا محمود الحسن صاحب سے کسی نے کیا تھا‘ حضرت نے محققانہ جواب دیا کہ عوام الناس کے مفاسد کی جیسی اس کو خبر ہے ہم کو نہیں حضرت نے حقیقت کو ظاہر فرما دیا۔ (الافاضات صفحہ ۳۶۸ جلد ۲) دستور العمل شادی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقہ کے مطابق شادی کرنے کی ضرورت شریعت نے نکاح کو مسنون قرار دیا ہے اور رسوم کو اس کا جز نہیں قرار دیا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس تقریب کو کر کے دکھلایا اور قرآن شریف میں ہے۔ {لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلْ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ} جس کے معنی یہ ہیں کہ حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے آپ کی ذات مبارک میں اچھا نمونہ دیا ہے نمونہ دینے سے کیا غرض ہوتی ہے یہی کہ اس کے موافق دوسری چیز تیار ہو۔ خوب یاد رکھئے کہ حق تعالیٰ نے احکام نازل کئے۔ جو بالکل مکمل قانون ہے اور ان کا عملی نمونہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو بنایا۔ سو اگر آپ کے اعمال نمونے کے موافق ہیں تو صحیح ورنہ غلط ہیں۔ اگر نماز آپ کی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی نماز کے موافق ہے تو نماز ہے ورنہ کچھ بھی نہیں۔ اسی طرح معاملات اور طرز معاشرت کو سمجھ لیجئے سب میں یہی حکم ہے۔ حق تعالیٰ نے ہمارے پاس کسی فرشتہ کو رسول بنا کر نہیں بھیجا اس میں حکمت یہی ہے کہ اگر فرشتہ آتا تو وہ ہمارے لئے نمونہ نہیں بن سکتا تھا اس کو نہ کھانے کی ضرورت ہوتی نہ پہننے کی نہ ازواج (بیاہ شادی) کی نہ معاشرت کی ان چیزوں کے احکام میں وہ صرف یہ کرتا کہ ہم کو پڑھ کر سنا دیتا۔ حق تعالیٰ نے یہ نہیں کیا بلکہ ہماری جنس سے پیغمبر بنائے کہ وہ ہماری طرح کھاتے پیتے بھی ہیں ازواج و تعلقات بھی رکھتے ہیں۔ تمدن و معاشرت کے بھی خو گر ہیں اور ان کے ساتھ کتابیں بھیجیں تا کہ کتاب میں احکام ہوں اور وہ خود بنفس نفیس ان کی تعمیل کر کے دکھائیں تا کہ ہم کو سہولت ہو۔ جتنی باتیں انسان کو پیش آتی ہیں سب آپ کو پیش آئیں‘ خود حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے بیبیاں رکھیں اور اپنی اولاد کا نکاح کیا۔ اب آپ دیکھ لیجئے کہ کون سا فعل ہمارے نمونہ کے موافق ہے کوئی تقریب خوشی کی ہوتی ہے تو ہم نہیں دیکھتے کہ (حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ) دستور العمل میں کیا ہے۔ (منازعۃ الہویٰ صفحہ ۴۵۰ تا ۴۵۶) حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کا نکاح اور رخصتی نکاح کے وقت حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک صحابی سے فرما دیا کہ جو کوئی مل جائے اسے بلا لو۔ پہلے سے کوئی اہتمام نہ کیا نہ اس کے لئے مجمع کیا گیا اور نہ کوئی خاص اہتمام ہوا۔ حالانکہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم چاہتے تو آسمان کے فرشتوں کو بھی بلا لیتے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صرف چند آدمیوں کو بلایا ان میں سے حضرت