اسلامی شادی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
یہ حکم تو لینے کے وقت کا ہے اور دینے کے وقت کے احکام سنئے قرآن شریف میں ہے۔ {وَاِنْ کَانَ ذُوْ عُسْرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ اِلٰی مَیْسَرَۃٍ} ’’یعنی اگر مقروض تنگدست ہو تو اس کو مہلت دینی چاہئے جب تک کہ وہ دے سکے‘‘۔ لیکن آپ کے اس قرض (کی ادائیگی) کا وہ وقت مقرر ہے جب کہ (دینے والے کے یہاں )شادی ہو خواہ کسی کے پاس ہو یا نہ ہو۔ اور ایک حکم یہ ہے کہ مقروض جس وقت ادا کرنا چاہے اس وقت ادا ہو سکتا ہے اگر کوئی ایک مدت کا وعدہ کر کے بھی قرض لے اور اس کی مدت سے پہلے ادا کرے تو دائن (قرض خواہ) کو نہ لینے کا اختیار نہیں۔ اسی وقت لینا پڑے گا اور آپ کے اس نیوتہ کو اگر کوئی بلا تقریب کے واپس کرنا چاہے تو نہیں لیا جاتا یہ کیسا قرض ہے یہ حق تعالیٰ کے احکام میں مداخلت ہے۔ (منازعۃ الہویٰ ملحقہ حقوق الزوجین صفحہ ۴۶۷) مروجہ نیوتہ کی حقیقت محض قرض ہے لوگ کہتے ہیں کہ نیوتہ سلوک ہے گویا صلہ رحمی میں داخل کرنا چاہتے ہیں۔ یاد رکھئے کہ یہ قرض ہے کیونکہ صلہ رحمی میں بشرط عوض (یعنی بدل) کی قید نہیں ہوتی اور اس میں یہ قید ہے صراحۃً ہو یا تعاملاً کیونکہ نیوتہ جبر کے ساتھ وصول کیا جاتا ہے۔ ایک صاحب کے یہاں شادی ہوئی تو اس میں نیوتہ کم آیا انہوں نے کاغذ نکال کر دیکھا تو بہت سے آدمی نیوتہ دینے سے رہ گئے تھے شادی ختم ہو گئی مگر انہوں نے ایک تنخواہ دار نوکر کئی مہینہ تک تنخواہ دے کر نیوتہ وصول کرنے کے لئے مقرر کیا۔ یہ کیسا صلہ رحم تھا جو اس طرح وصول کیا جاتا ہے خوب سمجھ لیجئے کہ صرف تاویل ہے در حقیقت نیوتہ قرض ہے اس کو کسی اور مد میں داخل کرنے کی گنجائش نہیں جب یہ قرض ہے تو اس پر قرض کے شرعی احکام جاری ہوں گے ان احکام میںآپ کو کوئی اختیار نہیں کہ کوئی تغیر و تبدل کر سکیں۔ جیسا کہ حاکم وقت کسی معاملہ کو ایک مد میں داخل کر کے اس کے احکام جاری کرتا ہے تو وہ جبراً تسلیم کرنے پڑتے ہیں اس میں آپ کو اختیار نہیں ہوتا کہ ان احکام میں اپنی طرف سے کچھ ترمیم کر دیں۔ جب دنیا کے بادشاہ کا ایک معاملہ پر حکم مرتب کرنا لازم ہو جاتا ہے جس میں ابھی یہ ثابت نہیں ہوا کہ یہ عقلاً صحیح ہے یا نہیں تو خدا احکم الحاکمین کے قرار دادہ احکام و معاملات کیوں لازم نہ ہوں گے۔ (منازعۃ الہویٰ صفحہ ۳۶۷) نیوتہ بیہواری لین دین کے مفاسد اس کے اندر بہت مفاسد ہیں چنانچہ ان میں سے ایک مفسدہ یہ ہے کہ جب لوگ کسی کے یہاں نیوتہ دیتے ہیں تو نیوتہ لینے والا اتنے لوگوں کامقروض ہوتا ہے اور حدیث میں صاف موجود ہے کہ مقروض جنت میں نہ جائے گا تاوقتیکہ اہل حق کا حق ادا نہ ہو جائے۔ (التبلیغ صفحہ ۹۲) نیوتہ کے قرض میں میراث بھی جاری ہونی چاہئے اور ایک فساد اس میں بہت بڑا ہے اور وہ مفسدہ تو بالکل لاعلاج ہی ہے۔ اس کا علاج ہی نہیں سوائے اسکے کہ اس رسم کو چھوڑ دیا جائے وہ یہ کہ جب نیوتہ قرض ہوا تو قرض میں میراث جاری ہوتی ہے جیسا کہ آپ نے دیکھا ہو گا کہ عورت مر جاتی ہے تو اس کے وارث خاوند پر نالش کر کے مہر کا روپیہ وصول کر لیتے ہیں۔ تو نیوتہ میں بھی میراث جاری ہونی چاہئے اور شرعی حصہ کے موافق سب وارثوں کو پہنچنی چاہئے مگر اس کا