اسلامی شادی - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کیا کیا۔ اگر کسی کے پاس بہت ہی زیادہ رقم ہو تو اس کو اس طرح برباد کرنا مناسب نہیں بلکہ دنیا دار کو کچھ رقم جمع بھی کرنی چاہئے اس سے دل مطمئن رہتا ہے اور طاعات میں یکسوئی نصیب ہوتی ہے۔ (الکمال فی الدین للنساء صفحہ ۱۱۲) بیاہ شادی میں اسراف اور خرچ کی زیادتی شادی بیاہ میں لوگ آنکھیں بند کر لیتے ہیں اس سے کچھ بحث نہیں ہوتی کہ اس موقع پر خرچ کرنا چاہئے بھی یا نہیں۔ خوب سمجھ لو خرچ کرنے کے بھی حدود ہیں جیسے نماز‘ روزہ کے حدود ہیں۔ اگر کوئی شخص نماز بجائے چار رکعت کے چھ رکعت پڑھنے لگے یا کوئی عشاء تک روزہ رکھنے لگے تو گنہگا ر ہو گا۔ رؤساء (مالدار) لوگ شادی وغیرہ میں بڑی بے احتیاطیاں کرتے ہیں‘ مسلمانوں کے حال پر بڑا افسوس ہوتا ہے کہ وہ آگے پیچھے کا خیال نہیں کرتے بری طرح فضول خرچی کرتے ہیں یہاں تک کہ تباہ ہو جاتے ہیں۔ بعضوں کی لنگوٹی بندھ جاتی ہے۔ یہ نوبت مسلمانوں کی اس وجہ سے ہوئی کہ آہنی قلعہ اسلام کا پھاٹک کھول دیاورنہ اسلامی اصول پر چلنے سے کبھی ذلت نہیں ہو سکتی۔ حقوق مالیہ کی حفاظت نہایت ضروری ہے۔ (التبلیغ صفحہ ۱۳۸‘ ۱۴۳ جلد ۱۵) شادی میں زیادہ خرچ کرنا حماقت ہے ایک رئیس صاحب تھے انہوں نے شادی کی اور بے انتہا خرچ کیا۔ مولانا محمد قاسم صاحب رحمہ اللہ ان کے یہاں آئے اور کہا کہ ماشاء اللہ آپ نے بہت ہی خرچ کیا آپ کی بلند حوصلگی میں کچھ شبہ نہیں مگر آپ نے بہت خرچ کرکے ایسی چیز خریدی ہے کہ اگر ضرورت کے وقت اس کو فروخت کریں تو اسے کوئی پھوٹی کوڑی (ایک پیسہ) کی بھی نہ لے وہ کیا ہے ’’نام‘‘ (شہرت)۔ (ایضاً صفحہ ۱۴۲ جلد ۱۵) ان رسموں نے مسلمانوں کو تباہ کر ڈالا ہے۔ اس لئے میں نے منگنی کا نام قیامت صغریٰ اور شادی کا نام قیامت کبریٰ رکھا ہے ان شادیوں کی بدولت گھروں کو گھن لگ جاتا ہے حتیٰ کہ رفتہ رفتہ سارے گھر کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ (عضل الجاہلیہ صفحہ ۳۶۶) اسراف کی قباحت بخل کے مقابلے میں اسراف زیادہ برا ہے اگر آدمی فضول خرچی سے بچے تو بڑی برکت ہوتی ہے۔ فضول خرچی بڑی مضر چیز ہے اس کی بدولت مسلمانوں کی جڑیں کھوکھلی ہو گئی ہیں۔ بخل کے مقابلہ میں اسراف زیادہ برا ہے۔ جس چیز کا انجام پریشانی ہو وہ زیادہ بری ہے اس سے جس سے پریشانی نہ ہو‘ بخل میں پریشانی نہیں ہوتی اور اسراف میں پریشانی ہوتی ہے۔ مسرف (فضول خرچی کرنے والے) سے اندیشہ ہے کہ کہیں دین نہ کھو بیٹھے ایسے واقعات بکثرت موجود ہیں کہ اسراف کا نتیجہ کفر ہو گیا اور وجہ اس کی یہ ہے کہ مسرف کو اپنی حاجتوں کے پورا کرنے میں اضطرار ہوتا ہے اور مال ہوتا نہیں اس لئے دین فروشی بھی کر لیتا ہے۔ اور بخیل کو یہ اضطرار نہیں ہوتا اس کے ہاتھ میں ہر وقت پیسہ ہے گووہ خرچ نہ کرے۔ (الافاضات صفحہ ۱۵۳ جلد ۲) اسی لئے میں کہا کرتا ہوں کہ آج کل پیسہ کی قدر کرنی چاہئے اس کے نہ ہونے کی وجہ سے بھی انسان بہت سی آفات میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ دین فروشی بھی اسی آفت کی ایک فرد